جنرل باجوہ کا اقبالی بیان

March 23, 2023

نوے کی دہائی میں آئی ایس آئی نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدواروں میں 14کروڑ روپے تقسیم کئے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے سپریم کورٹ میں اپنے اس جرم کا اعتراف کیا مگر ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کی جا سکی کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور جنرل (ر) اسلم بیگ مرزا سمیع اللہ اور کلیم اللہ کی طرح گیند ایک دوسر ے کی طرف اچھالتے رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ نے بھی اب یہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ صحت جرم سے انکار نہیں کیا جارہا البتہ ـ ’’پروجیکٹ عمران‘‘ کا گرم آلو ایک دوسرے کی طرف اچھالنے کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے حالیہ انٹرویو میں جو باتیں کہی ہیں اگر ان پر من و عن یقین کر لیا جائے تو گویا وہ جی ایچ کیو کے کسی کونے میں بیٹھ کر چپ چاپ دہی کھاتے رہے اور فرزند لطیفال نہایت تندہی اور فرض شناسی سے نیا پاکستان بناتے رہے۔ اس سے پہلے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ عمران خان کو چیف جسٹس ثاقب نثار سے ’’صادق و امین‘‘ کا سرٹیفکیٹ جاری کروانے اور توازن قائم رکھنے کے لئےجہانگیر ترین کو نااہل قرار دلوانے کا سہرا جنرل (ر) فیض حمید کو جاتا ہے۔ مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ کپتان نے ایڑیاں رگڑیں تو ’آبپارہ‘‘سے فیض کا سرچشمہ پھوٹ پڑا۔اور پھر جو اچھا برا ہوا، نئے پاکستان کے معماروں ،جناب فیض حمید اور جناب عمران خان نے مل کر کیا۔مثال کے طور پرابصار عالم پر حملہ کروانے میں جنرل (ر)قمر باجوہ کا کوئی کردار نہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں نے کبھی کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا۔‘‘ حالانکہ وہ اپنی بات کو مزید موثر بنانے کے لئے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں نے تو کبھی مکھی نہیں ماری، کسی انسان کو قتل کرنے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہوں۔ انہیں تو اسد طور پر حملے کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔ ابصار عالم کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے آئی ایس آئی انٹرل ونگ کے سربراہ یعنی ڈی جی سی میجر جنرل عرفان ملک کو غصہ آ گیا ہو اور انہوں نے یہ کام کیا ہو، اسی طرح کراچی میں مریم نواز ہوٹل کے جس کمرے میں قیام پذیر تھیں، اس کا دروازہ توڑ کر کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرنے کا فیصلہ وہاں آئی ایس آئی کے اسٹیشن چیف بریگیڈیئر حبیب نے کیا۔انہیں تو بس اتنا پتہ چلا یا پھر شاید ان کی دلچسپی اسی بات میں تھی کہ کیپٹن (ر)صفدر اور مریم نواز ایک کمرے میں نہیں بلکہ الگ الگ کمروں میں سورہے تھے ۔اعظم سواتی اور شہباز گل کو برہنہ کرنے کے الزام کو بھی جنرل (ر) باجوہ غلط قرار دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں، میں خود 62سال کا ہوں ،اس عمر میں 70سال کے بزرگ اعظم سواتی کو کیسے برہنہ کر سکتا ہوں۔ حالانکہ جنرل (ر) باجوہ اس سوال کے جواب میں یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جو شخص خود برہنہ ہو چکا ہو، وہ کسی اور کے کپڑے کیسے اتروا سکتا ہے۔ایمان مزاری ایڈووکیٹ نےــ ’’بے غیرت‘‘ کہا مگر ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ ’’ایک میجر نے کہا، سر! آپ بے غیرت ہیں۔ ہم اس کو فکس کریں گے۔‘‘ اس جملے میں سوالیہ نشان نہیں ہے اس لئےمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ فوجی افسر اپنے چیف سےاستفہامیہ انداز میں پوچھ رہا تھا یا پھر ایمان مزاری ایڈوکیٹ کی بات پر مہر تصدیق ثبت کر رہا تھا؟ بہر حال جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق انہوں نے منع کردیا اور کہا کہ بس قانونی طور پر نمٹیں۔اس کے بعد جی ایچ کیو نے باقاعدہ تحریری طور پر درخواست دی مگر چونکہ جسٹس اطہر امن اللہ کی بیٹی اور ایمان مزاری ایڈوکیٹ آپس میں دوست ہیں اسلئے جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں ضمانت دیدی۔ اس کے بعد جنرل صاحب نے جان بوجھ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نصرت جاوید، مرتضیٰ سولنگی اور طلعت حسین کو نوکری سے نکلوانے کی بھی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جنرل فیض حمید نے طلعت حسین کو نوکری سے نکلوایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ملازمت سے فارغ ہوجانے کے بعد طلعت حسین جنرل قمر جاوید باجوہ کے کزن انجم وڑائچ کو ان کے پاس لے کر آئے تو انہوں نے ان کی مدد کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورِ حکومت میں ان کے استاد عرفان صدیقی کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کیا گیا۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے سفارش کرکے انہیں آرمی چیف تعینات کروایا۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کردار محض مشاورت یا پھر ڈانٹ ڈپٹ تک محدود تھا۔ مثلاً مطیع اللہ جان کو آئی ایس آئی نے نہایت بھونڈے طریقے سے اُٹھایا جس پر انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو ڈانٹا۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ تو آئی ایس آئی کے ڈی جی سی کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری لینے کو بھی تیار نہیں ۔ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے میجر جنرل عرفان ملک کو اس لئے ہٹادیا کہ انہوں نے مریم نواز کو Smashکرنے کی دھمکی دی تھی تو انہوں نے کہا ،میجر جنرل عرفان ملک کو جنرل فیض حمید نے ہٹایا کیونکہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ساتھ DG(C)کا کام بھی خود کرنا چاہتے تھے ۔جنرل (ر)باجوہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ شیو کرتے ہوئے صدیق جان کاوی لاگ سنا کرتے تھے ۔دوسری جانب مریم نواز کہتی ہیں ،جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عمران خان مطالبہ کرتے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ یہ دونوں حضرات سمیع اللہ او رکلیم اللہ بنے ہوئے ہیں تو کیوں نہ دو پھندے تیار کئے جائیں اور دونوں کا کورٹ مارشل کیا جائے؟