مسلم لیگ (ن) کے لئے فیصلے کی گھڑی

March 26, 2023

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں سے ملنے۔ ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ اب تو رمضان کا ماہِ مقدس اپنی رحمتیں، برکتیں ،مغفرتیں بانٹ رہا ہے۔کراچی میں موسم بہت خوشگوار ہے۔ اب آپ دوپہر کے کھانے پر اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ افطاری پر کچھ مختصر باتیں ہوسکتی ہیں۔ ان تقدس بھرے دنوں میں تو ہم سب کو زیادہ سے زیادہ عبادتوں پر زور دینا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت ہر روز کرنا ہے۔ کم از کم ایک ایک قرآن تو خود پڑھ کر پورا کریں۔ ایک قرآن اپنی قریبی مسجد میں اپنے سینے میں قرآن کی روشنی محفوظ کرنے والے کسی خوش نصیب کی اقتدا میں پورا سنیں۔ اپنی اولادوں کو ساتھ لے جائیں۔ویسے تو سب کے لئے ہی بہتر ہے کہ حکمران۔ منتخب۔ نامزد۔ نگران۔ایک خاص مدت والے۔ باقاعدہ ملازمت والے۔ یہ مہینہ سجدہ گزاری میں بِتاتے۔ رحمتیں لوٹتے۔ برکتیں جمع کرتے۔ مغفرتیں اپنے نام کرتے۔ مگر گزشتہ اپریل سے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والوں کے دن رات اسی دُھن میں گزر رہے ہیں کہ جو کرسیاں مل گئی ہیں،ان پر زیادہ سے زیادہ جتنی دیر ممکن ہو، براجمان رہا جائے ۔ حکومت اور ریاست کی طاقت جتنی شدت سے اپنی مخالف جماعت کے خلاف استعمال ہوسکتی ہے،وہ کی جائے جب سب کسی سے ڈرے ہوئے ہوں تو ذہن مائوف ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی ہوشمندی۔ سنجیدگی سے کام نہیں لیتا۔مستقبل پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ لیڈر صرف ایک الیکشن نہیں قوم کی بقا کو دیکھتا ہے۔

رمضان المبارک میں تو کافر بھی جنگ بندی کا اعلان کردیا کرتے تھے۔ ایک مہینہ پوری یکسوئی سے مسلمانوں کو اللہ سے لَو لگانے کے لئے چھوڑ دیتے تھے۔ مگر ہم تو برسوں سے دیکھتے آرہے ہیں کہ اس مملکت خداداد میں سیاسی محاذ آرائی رمضان میں بھی جاری رہتی ہے۔ بہت سے ہم وطن سلاخوں کے پیچھے سحر و افطار کرتے ہیں۔ اسلام کے عظیم علمبردار جنرل ضیاالحق کے دَور میں ہم نے بھی کچھ روزے حیدر آباد سینٹرل جیل میں گزارے۔ نماز عید کے لئے ایک نابینا امام کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن انہیں اتنی جلدی تھی کہ مقتدیوں سے انہیں ملنے بھی نہیں دیا گیا۔

ایک بد بخت بیٹے نے جائیداد کےلالچ میں باپ جیسی ہستی کو قتل کردیا۔ سزائے موت ہوئی۔ چھوٹی بڑی عدالتیں سب اس سزا کی توثیق کرتی رہیں۔ آخر میں وہ اپیل کررہا ہے کہ میں یتیم ہوں۔ اس لئے میری سزا میں کمی کی جائے۔ موجودہ حکمرانوں نے آتے ہی اپنے مقدمات تو ماہرین قانون اورمقتدر قوتوں کی مدد سے ختم کروادیے ۔ معیشت کو بگڑنے دیا۔ روپے کی قیمت گرنے دی۔ امن و امان کی طرف توجہ نہیں دی۔ خزانہ خالی ہونے دیا۔ اب اسی صورت حال کو بنیاد بناکر الیکشن ملتوی کروادیے گئے ہیں۔آئین 1973۔ جو 50 سال سے منتخب حکمرانوں اور فوجی حاکموں کے پھول، پتھر، ہتھکڑیاں، بیڑیاں برداشت کرتا آرہا ہے۔ اب جب اس کی گولڈن جوبلی منانے کے دن ہیں، اس سے مکمل انحراف کرلیا گیا ہے ۔جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو شاید عدالتِ عظمیٰ کچھ پیش رفت کرچکی ہو۔

اس سارے منظر نامے میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) اپنے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے۔ آئینی انحراف میں ساری پارٹیاں شامل ہیں۔ مگر ذمہ دار صرف شریف خاندان کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ ان کیلئے پنجاب میں اپنی مقبولیت بحال کرنا سب سے مشکل ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو اب بھی 80اور 90کی دہائیوں میں خیال کررہے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی ہے۔ طاقت کے مراکز تبدیل ہورہے ہیں۔ مقابلہ صرف حکمران جماعت اور اپوزیشن میں نہیں ہے۔ حکمرانوں کو قدیم قوتوں۔ پولیس۔ رینجرز ۔ بیورو کریسی اور ریاستی بازوئوں کی مدد میسر آرہی ہوگی۔ لیکن وہ عدلیہ کے ہاتھوں کمزور پڑ رہی ہے۔ رائے عامہ کی حمایت سے وہ محروم ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور خاص طور پر موبائل فون بڑی طاقت بن رہا ہے جو یکسر آزاد ہے۔ بڑے بڑے ملکوں میں سوشل میڈیا انتہائی طاقت ورمقتدر مافیائوں کو شکست دے چکا ہے۔اس پر تحقیق اور تصدیق سے کتابیں لکھی جاچکی ہیں کہ سوشل میڈیا نے بادشاہوں اور فوجی حکمرانوں کیلئے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔

جب ڈرائیور خود گاڑی کو پٹڑی سے اتار کر چلانا چاہتا ہوتو حادثے برپا ہوتے ہیں۔ پھر صرف ایک گاڑی نہیں آنے جانے والی ساری گاڑیاں رک جاتی ہیں۔ زندگی کا سفر رک جاتا ہے۔ مسافر اور ان کے لواحقین مشتعل ہوجاتے ہیں۔ 1971 میں بھی پارٹیوں کو ایک سال کی انتخابی مہم مل گئی تھی۔ مقتدرہ جن دو پارٹیوں کی فتح میں رکاوٹیں ڈال رہی تھی، وہ اس طوالت سے اور زیادہ مقبول ہوتی گئیں پھر نتیجہ دیکھ لیں کہ کیا ہوا۔ اب بھی ملک کے سب ستونوں کو سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہئے۔ معیشت کو آنسو گیس شیلنگ سے بہتر نہیں کیا جاسکتا۔ ڈالر پولیس کے لاٹھی چارج سے سستا نہیں ہو سکتا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دفعہ 144سے لوگوں کی قوت خرید میں نہیں آسکتیں۔ اپریل 2022سے تاریخ دیکھ رہی ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ روپے کی قیمت گررہی ہے۔ افراط زر کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپنے قدرتی وسائل پر انحصار کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ۔ عوام سے حکمران پارٹیوں کے رابطے کی کوئی کاوش نہیں ہورہی۔ اکتوبر تک بھی رفتار یہی رہے گی۔

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

جو خواتین و حضرات اس وقت ریاست کا اختیار استعمال کرنے کے مناصب پر فائز ہیں۔ نہ تو ہمیشہ ان عہدوں پر رہیں گے اور نہ ہی ہمیشہ جئیں گے۔ سب آئین اور قواعد و ضوابط کے پابند ہیں۔ کوئی 16ستمبر 2023تک رہے گا۔ قومی اسمبلی 12اکتوبر 2023 تک رہے گی۔ کوئی 8ستمبر 2025تک کوئی 27جنوری 2025تک اورکوئی 23نومبر 2025تک۔ الیکشن جب بھی ہوں گے۔ عوام اسی کو اپنا مینڈیٹ دیں گے جو ان سے رابطے میں ہوگا۔ جو اِن کے درد بانٹ رہا ہو گا۔ موجودہ حکمران معیشت اگر 10ماہ میں بہتر نہیں کر سکے تو آگے کیسے کرسکیں گے۔ ہاں اگر اپنے ذاتی خزانوں سے چند ارب ڈالر سرکاری خزانے کو رضاکارانہ فراہم کر دیں یا قرضہ دے دیں تو یقیناً معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔

آئین سے انحراف فوجی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ مگر ان کے دَور میں معیشت کی یہ حالت نہیں ہوئی تھی۔ اب تو آئین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ معیشت کی بدحالی بھی اور لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے زار ی بھی۔ یہ صورت حال سب کے لئے خطرناک ہے۔فلک بوس قیادتیں زمیں بوس ہورہی ہیں۔

مسلم لیگ(ن) سے اقبال کہہ رہے ہیں:

دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم