بھوک اور خوف کا معاشرہ

April 01, 2023

کبھی آپ نے سوچا کہ دنیا میں انسانوں پر خدا کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت کیا ہے ، اس کا سب سے بڑا انعام کیا ہے جو صرف ان انسانوں اور معاشروں کو ملتا ہے جس سے خدا راضی ہوتا ہے؟ اسی طرح اس کے عتاب اور غضب کا نشانہ بننے والے افراد اور اقوام کی نشانی کیا ہے؟ اس کا جواب قرآن پاک میں سورۃ قریش میں یوں دیا گیا ہے۔ ترجمہ’’ اور اس گھر (خانہ کعبہ) کے ربّ کی عبادت کرو، جس نے تمہیں بھوک میں کھانا اور خوف میں امن دیا۔ ‘‘گویا معاشی خوشحالی اور پر امن معاشرہ خدا کی انسانوں پر سب سے بڑی رحمت ہے، جس کے لئے اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے جب کہ معاشی بدحالی یا بھوک اور بد امنی کا شکارمعاشرہ یقیناََ عذاب ِ الہٰی سے کم نہیں جو خدا کے نزدیک نا پسندیدہ افراد اور اقوام پر عتاب کے طور پر نازل کیا جاتا ہے۔ہم اگرقرآنی احکامات کی روشنی میں دیکھیں توانسانوں کا فلاحی معاشرہ وہی ہے جس کے لئے بلا امتیاز مذہب و ملّت ، دنیا کے تمام اچھے انسان آج تک جدو جہد کرتے اور قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد ایسے معاشرے کا قیام ہے جو غربت ، افلاس اور بھوک کے ساتھ ساتھ تشدّد، قتل وغارت گری اور بدامنی سے بھی پا ک ہو۔ایسے ہی فلاحی معاشروں کے لئے تمام انبیائے کرام ، ولیوں اور صوفیا نے بھی کوشش کی اور یہی وہ معاشرہ ہے جس کی خاطر سائنسدانوں ، معاشی ماہرین ، شاعروں اور ادیبوں نے قربانیاں دیں ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب ، کسی بھی مکتب فکر اور کسی بھی خطے سے تھا۔ لیکن انسانی معاشرے کا المیہ یہ بھی کچھ کم نہیں کہ مذہب پر اجارہ دار طبقوں نے مذہب کے نام پر ہی ان تمام افراد کا راستہ روکنے کی کوششیں کیں جو انسانی معاشرے کو بھوک اور خوف سے نجات دلانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اور اکثر کو تو انہوں نے عبرتناک مثال بنا دیا۔ تاریخ ابھی گلیلیوکے ماتم سے فارغ نہیں ہو سکی جسے اس کے سائنسی نظریات کی سچائی بیان کرنے پر عیسائی علماء نے موت کی سزا دے دی اور سقراط کو محض اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ اس کا سچ سوسائٹی کے نام نہاد اعلیٰ طبقوں کے لئے موت کا پیغام تھا۔ ہمارا آج کا معاشرہ مکمل طور پر بھوک اور خوف کا معاشرہ ہے غربت ، افلاس ، اخلاقی بے راہ روی ، قتل و غارت گری، نا انصافی گویا کوئی ایسی بُرائی نہیں جو ہمارے معاشرے میں بد ترین شکل میں نہ پائی جاتی ہو۔ہم ایک ایسے بدترین تاریخی ورلڈ ریکارڈ کے حامل ہیں جسے شاید ہی کبھی کوئی توڑ سکے ۔ کہ ہم نے صرف 23برس کے قلیل عرصے میں اپنا ملک ہی توڑ ڈالا ۔ جی ہاں صرف 23برس۔ اس عظیم سانحے کے بعد بھی ہم اپنے خود ساختہ ’’نظریاتی واہموں‘‘ کے آسیب میں اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ بقیہ ملک بھی لہو لہان ہو کر حالتِ نزع میں پڑا سسک رہا ہے۔ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ مثلاََ پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد جاگیر داروں اور استحصالی طبقوں نے مذہبی اور فوجی اشرافیہ سے مل کر عوامی رائے عامہ کا مذاق اڑانے ، جمہوریت کو خلاف ِ مذہب اور آمریت کو اس ملک کا مقدر قراردینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تاکہ وہ اپنی جاگیریں اور لوٹ کھسوٹ کی کمائی کو تحفظ دے سکیں۔ انہیں خطرہ تھا کہ جس طرح انڈیا نے تقسیم ِ کے فوراََ بعد بیک جنبش ِقلم ریاستی اور جاگیرداری نظام ختم کر دیا ہے کہیں جمہوری نظام کے استحکام کی شکل میں پاکستان میں بھی ایسا نہ ہوجائے۔ وہ اپنی سازشوں کے ذریعے اپنی جاگیریں بچانے میں کامیاب تو ہو گئے۔ لیکن اس ملک پر وہ ظلم کر گئے جس کی سزا ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور سماج کے دیگر استحصالی طبقوں نے اپنے ساتھ ساتھ دو مزید طبقوں کو بھی استحصالی حکمراں طبقوں میں شامل کرلیا، جنہوں نے پاکستان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ یہی طبقات بالآخر صرف 23برس بعد ہی 1947ء میں قائم ہونے والی ریاست کے خاتمے کا باعث بن گئے۔ ان میں ایک مذہبی علمائے سو کا طبقہ اور دوسرا فوجی اشرافیہ کا طبقہ ( جو بعد میں ادارے کی بجائے طبقے کی شکل اختیار کر گئے)شامل ہے۔ چنانچہ ان تمام طبقوں نے مل کر پاکستان کو بیسویں صدی کا ایک ایسا عجوبہ بنا دیا جس میں قرون وسطیٰ کے متروک نظام اور نسخے آزمائے جارہے تھے۔جس کسی نے غریبوں کے لئے روٹی کپڑے اور مکان کی بات کی یاجس نے خطے میں امن کے لئے آواز بلند کی اسے دشمن کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا گیا، جس نے جمہوریت ، انسانی آزادی اور مذہبی رواداری کے حق میں آواز اٹھائی اس کی زبان کو ہمیشہ کےلئے خاموش کردیاگیا۔ خود ہر طرح کی نئی سائنسی ایجادات سے فائدہ اٹھانے والوں نے سائنسی علوم کی ترویج، فنون لطیفہ ، فلم اور ادب کی ترقی کی بات کرنے والوں کو ’’ مغرب زدہ‘‘ قرار دے کر معتوب کردیا۔جب آپ مسائل کی بجائے نان ایشوز پر اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے ۔ آپ قوم کو نظریاتی مغالطوں ، نظریاتی سرحدوں اور نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں تقسیم درتقسیم کرتے چلے جائیں گے اور جیتے جاگتے انسانوں کے خوفناک مسائل سے پہلو تہی کرتے رہیں گے تو مسائل کا انبار اور بوجھ اتنا بڑھ جائے گا کہ بالآخر آپ اس میں دب کر رہ جائیں گے۔سوال یہ ہے کہ کب تک ہم خود کو دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح سمجھنے کی بجائے کوئی الگ مخلوق سمجھ کر حماقتیں کرتے رہیں گے۔ بھوک اور خوف کا شکار ہمارا یہ قابل ِ رحم معاشرہ نظریاتی ٹوٹکوں ، تعویز دھاگوں اور طلسماتی کرامات سے ٹھیک نہیں ہوگا اس کیلئے ایسا معاشی ، سیاسی اور سماجی نظام رائج کرنا ہوگا جس نے باقی دنیا کے معاشروں کو امن اور خوشحالی کے معاشروں میں تبدیل کر دیا ہے۔