محفوظ مستقبل کے لئے کامیاب شراکتیں

April 02, 2023

آج اتوار ہے ۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں ،نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ افطاری کا دن۔ آج میرے پاس تو کہنے کے لئے بہت کچھ ہے میں بہت خوش ہوں۔

نہیں نہیں۔ یہ مجھے اپنے مستقبل سے مایوس نہیں کرسکتے۔ یہ سیاستدان۔ ادارے۔ سردار۔ جاگیردار۔ ٹھیکیدار۔ آئین سے کھیلنے والے ابن الوقت۔ نہتے ہم وطنوں پر لاٹھیاں برسانے والے۔ آنسو گیس کے شیل پھینکنے والے۔ نوجوانوں کو قیدی گاڑیوں میں ٹھونسنے والے۔ رات کے پچھلے پہر جدو جہد کرنے والوں کے دروازے توڑنے والے۔

میں نے جمعرات کی صبح شہر قائد کے مضافات میں تاحد نظر جھاڑیوں کے درمیان علم کے گلستانوں میں پھولوں کے ساتھ گزاری ہے۔ یہ میرا مستقبل ہے۔ الطاف حسن قریشی کی آئندہ ہے۔ یہ عطاء الحق قاسمی کی فردا ہے۔ امر جلیل کی آنے والی کل ہے۔ کشور ناہید کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ حامد میر کے عظیم والد وارث میر کی بصیرت ہے۔ انصار عباسی کی نیک دلی کی مثال ہے۔ سعدیہ قریشی کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ سلمیٰ اعوان کی سیاحتوں کی منزل ہے۔ رضی الدین رضی کے خیال کی پرواز ہے۔ خالد مسعود خان کے پیج و تاب کی فضا ہے۔ مجیب الرحمٰن شامی کی تمنّائوں کا مرکز ہے۔ کینیڈا کے عبدالغفور چوہدری کی عمر بھر کی امنگوں کا آشیانہ ہے، جس کےلئے جاوید چوہدری نے اپنی زمین عطیہ کی ہے۔ یہ ملیحہ لودھی کی طویل تگ و دو کا ایک سنگ میل ہے۔ ایاز امیر کے حرف سے عشق کا گلاب ہے۔ میں ان سب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ گڈاپ ٹائون کے دیہی علاقے میں ، میں نے اپنے آئندہ دس پندرہ سال اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔

یہ پیپلز پروگرام اسکول جلبی گوٹھ ہے۔ سید سلطان شاہ اصحابی سیکنڈری اسکول راہو گرام جوکھیو گوٹھ ہے۔ قبل از پرائمری سے انٹر تک میری آپ کی آئندہ نسلیں اُردو۔ انگریزی۔ سندھی پڑھنا بولنا لکھنا سیکھ رہی ہیں۔ لیبارٹری میں تجربات کررہی ہیں۔ بالکل مفت۔سب کچھ۔ پیپلز پروگرام اسکول میں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں انگلستان کی کائونٹی کے کسی خوبصورت اسکول میں ہوں۔ بچوں کی کرسیاں۔ میزیں۔ تفریح یا آدھی چھٹی میں کچھ کھانے پینے کے لئے بیٹھنا ہو تو رنگا رنگ پھولداریاں۔ چھوٹی چھوٹی کرسیاں۔ سب عالمی معیار کی۔ یہ بچے بچیاں آس پاس کے دور دراز کے گوٹھوں سے پیدل۔ سائیکل پر آرہے ہیں۔ کسی کے والد۔ کسی کے ماموں موٹر سائیکل پر یا اسکول کی وین۔ یا گائوں کا رکشے والا چھوڑ کر جارہا ہے۔ سب کو مبارک کہ دیہی علاقے کے پاکستانی قائل ہوگئے ہیں کہ تعلیم ہی خوشحالی کی طرف لے جائے گی۔ بچیوں کو اسکول بھیجنا بہت فیصلہ کن گھڑی تھی۔ صدیوں کی سوچ سے مزاحمت۔ جن بیٹوںبیٹیوں نے بھی ان ہم وطنوں کو یہ بڑا قدم اٹھانے پر آمادہ کیا ہے۔ وہ ہمارے حقیقی رہبر ہیں ۔ یہاں زندگی وحشت بھری جھاڑیوں سے لہراتے سبز پرچم تلے پھولوں سے لدی روِشوں کا رُخ کررہی ہے۔ مدت سے سنسان پڑے سرکاری اسکولوں کی وسیع و عریض عمارتوں میں رونقیں آرہی ہیں۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ اس مشکل سفر کے لئے ہم سفر ڈھونڈے اور یہ معجزے رُونما ہونا شروع ہوگئے۔ ان دونوں اسکولوں میں پارٹنر سندھ مدرسہ بورڈ ہے۔ وہ مدرسہ جہاں بانیٔ پاکستان بستہ لے کر پڑھنے آتے تھے۔ ان کی روح اِدھر اُدھر عدالتوں۔ سیکرٹریٹوں میں ہونے والے کھلواڑ پر سخت پریشان ہوتی ہے۔ لیکن ان مدارس میں جو آزاد کشمیر۔ گلگت بلتستان۔ پنجاب۔ سندھ۔ کے پی کے۔ بلوچستان میں ناداروں مجبوروں کے بچوں بچیوں کو مفت لیکن با عزت۔ با وقار انداز سے تعلیم ہی نہیں اخلاق سے بھی آراستہ کررہے ہیں۔ یہاں قائد اعظم کی روح کو کتنی تسکین ہوتی ہوگی۔

سندھ میں9لاکھ بچے ایسے محفوظ اورمعیاری اسکولوں میں مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں سینکڑوںاعلیٰ تعلیمی تنظیمیں سندھ مدرسہ بورڈ کی طرح پارٹنر ہیں۔

میں اپنے حال سے ہر لمحہ دل گرفتہ ہوں۔لیکن اپنے مستقبل کو محفوظ ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں۔ بعض بیٹیاں انہی اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر یہیں پڑھارہی ہیں۔ بہت دور دور سے سفر کرکے آنے والی نسلوں کو چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تیار کررہی ہیں۔ میں انہیں وی آئی پی سمجھوں یا ان لوگوں کو جنہیں مسندیں مل گئی ہیں۔ مگر وہ ملک کے حقیقی مالکوں کے دکھ درد کو بھول گئے ہیں۔ یہ بھی قابل فخر ہیں ان کے والدین بھی۔ یہ صرف تنخواہ کے حصول کے لئے نہیں۔ یہ قوم کی سربلندی کے لئے گھر سے نکلتی ہیں۔کراچی کے بے درد ڈاکو ان کی وین روک کر ان کے موبائل، نقدی اور گھڑیاں بھی چھین لیتے ہیں۔ لیکن یہ ہمت نہیں ہارتیں۔ ہم سب کو چاہئے کہ انہیں سلامی دیں۔ یہ ہماری سلامتی کی محافظ ہیں۔

جنگل میں تہذیب اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ یہاں بچیوں بچوں کیلئے سب سے زیادہ پُر کشش کمپیوٹر ہے۔ پہلی کلاس کے طالب علم ہوں۔ مڈل، میٹرک کے۔ یا وہ جو پڑھائی بیچ میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان سب کی امنگوں کا مرکز کمپیوٹر کلاسز ہیں۔بالغوں کے لیے سلائی مشینیں بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ کشیدہ کاری بھی سکھائی جارہی ہے۔ گوٹھوں میں سماج بدل رہا ہے۔

ہم وہی روایتی انداز میں پوچھ رہے ہیں۔ بڑے ہوکر کیا بننا چاہیں گے۔ بچیاں زیادہ تر ڈاکٹر۔ کچھ ٹیچر۔ ایک لڑکا فوجی بھی بننا چاہتا تھا۔ ایک نے بزنس مین کو اپنا آئیڈیل بنایا۔ جج بننے کو کوئی تیار نہیں تھا۔

بچوں بچیوں کے ساتھ ساتھ بالغوں کیلئے بھی تعلیم اور تربیت کا اہتمام ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ شام کی کلاسز میں بڑی تعداد میں ہمارے دیہاتی بھائی شریک ہورہے ہیں۔ یہ خاص اسکول جو سندھ سرکار نے بنائے تھے۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن ان کی مدد کررہی ہے۔ کوئی علمی ادارہ پارٹنر کے طور پر اس کا انتظام سنبھال رہا ہے۔ ان اسکولوں کی صبحیں، دوپہریں،شامیں سب آباد ہیں۔ ہم نے ملک میں یونیورسٹیاں ضرورت سے زیادہ بنوادیں۔ جہاں جہاں کئی ایکڑ پر یونیورسٹیاں بنوائیں وہاں یہ نہیں دیکھا کہ اچھے پرائمری مڈل سیکنڈری یا ہائر سیکنڈری اسکول بھی ہیں یا نہیں۔ یونیورسٹی کیلئے طالب علم کہاں سے آئیں گے۔

ضرورت تو یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرح۔ ایک زیادہ با اختیار پرائمری مڈل ایجوکیشن کمیشن اور ایک سیکنڈری ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن ہر صوبے میں قائم ہو۔ یہ وہی روش ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلیاں ہیں لیکن بلدیاتی اسمبلیاں نہیں ہیں۔ یہ خلا بہت خوفناک اور خطر انگیز ہے۔یہی خلا سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کو جنم دے رہا ہے۔ اس خلا کی وجہ سے ہی ایک سسٹم نہیں بن پارہا ۔

مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئےپارٹنرز موجود ہیں۔ جہاں جہاں سرکار ہمت کرتی ہے وہاں تبدیلی آجاتی ہے۔ ہمارا عقیدت بھرا سلام۔ ان افراد اور تنظیموں کے لئے جو علم کی روشنی بانٹتے ہیں اپنا وقت اپنا سرمایہ لگارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان طالب علموں، اساتذہ، اسکولوں کی انتظامیہ کو ہر قسم کے ڈاکوئوں سے محفوظ رکھے۔