ٹروتھ کمیشن ضروری

May 27, 2023

پاکستان کا سیاسی بحران شدید تر ہوتاجا رہاہے۔ عمران خان کو گرفتار کرنے پر تشدد، شرپسندی، جلائو گھیرائو اور فوجی تنصیبات پر 9مئی کے حملوں نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔ ملٹری کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس پر دانشوروں کے حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں ایسی عدالتوں نے انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا۔ آج دانشور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حالات کو اس نہج پر پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ ،عمران خان، اعلیٰ عدلیہ اور پی ڈی ایم کا کتنا کتنا حصہ ہے ؟ 2014ء سے 2018ء تک اسی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو پالا پوسا اور ہر قسم کے قانون کو بالائے طاق رکھ کراقتدارانکےحوالےکیا۔گوکہ پاکستان کی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کا یہ کردار نیا نہیں کیونکہ اس سے پہلے کنونشن مسلم لیگ ، مسلم لیگ جونیجو، ایم کیو ایم، مسلم لیگ قاف اور باپ پارٹی کا ظہور انہی کی جنبشِ ابرو کا مرہون منت تھا۔یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ تحریک انصاف اور باپ پارٹی کے لوگ جوق در جوق مسلم لیگ قاف اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حالات پچھلی پانچ چھ دہائیوں کا ایکشن ری پلے ہیں ۔ اسی طرح 2018ء میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور اسٹیبلشمنٹ نےنواز شریف کونااہل کروایا اور انہیں سزا دلوائی حالانکہ احتساب عدالت کے جج نے اعتراف بھی کیا کہ وہ دبائو میں تھے ،لیکن عدلیہ نے آج تک اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کو بھی حکومت نہیں لینی چاہئے تھی کیونکہ عمران خان نے معیشت کا برا حال کر دیا تھا۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پرانے کیسز ختم کرانے کیلئے انہیں یہ جوا کھیلنا پڑا لیکن دوسری طرف عمران خان نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور امریکہ مخالف بیانیے سے عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ اس بحران میں چیف جسٹس بھی تنقید کی زد میں آئے کہ وہ اپنے مخصوص بینچوں کے ساتھ قانون اور آئین سے ماورا فیصلے کرتے ہوئے عمران خان کو ریلیف دیتے رہے۔ دنیا بھر میں قانون کا منبع عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہوتی ہے ، اس کے فیصلوں کو یوں ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے سے پارلیمنٹ اور عدلیہ ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوگئے ، جس سے سیاسی بساط کے لپٹنے کاخطرہ ہے ۔ آج سیاسی پارٹیوں نے جو حکمت عملی بنائی ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کوایک اہم پلیئر کے طور پر لیا جاتا ہے کیونکہ جس جس نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی ، اسےنشان ِعبرت بنا دیا گیا۔ نئے آرمی چیف کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ پاک فوج کی اصل طاقت اس ملک کے عوام ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے مستفید ہوں اور پاکستان کو ایک ایسی فلاحی ریاست بنایا جائے جہاں ریاست اور لوگوں کے درمیان ایسا رشتہ ہو جو پاکستان کے دفاع کو مضبوط کر سکے۔تاہم انہیں اپنے یہ اہداف حاصل کرنے کیلئے آئین اور سویلین سپر میسی کو اولین اہمیت دینا ہوگی اور آئندہ کسی نئے’’پروجیکٹ عمران ‘‘کوتقویت نہ دینا ہوگی۔سویلین اور فوجی بیوروکریسی پر ایک الزام یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے ریاستی ڈھانچے کے ذریعے سماج میں ایسے بیانیے پروان چڑھائے جنہوں نےسیاسی لیڈروں کی بجائے ہیرو کلٹ اور سیاسی خاندانوں کو تقویت دی اور 75 سال میں پاکستان میں ادارہ سازی ایک انچ بھی پروان نہ چڑھ سکی ۔ یاد رہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے لیکن ہندوستان میں سیاسی عمل مسلسل چل رہا ہے جس میں بیک وقت مودی اور کیجری وال جیسے دو مختلف سیاسی نظریے کے لوگ کام کر رہے ہیں لیکن بالآخر اس کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام ہی کرتے ہیں کہ کون حکومت میں آئے گا۔ یاد رہے کہ سیاسی عمل کے تسلسل سے ہی ادارے بنیں گے جو کرپشن کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں گے ۔ پاکستان کے مسائل کے حل کیلئے نیلسن منڈیلا کی مثال حاضر ہے ۔ میں نے سمندر کے درمیان ایک جزیرے میں اس کال کوٹھری کو دیکھا ہےجہاں انہوں نے ستائیس سال گزارے لیکن جب وہ عوام کے دبائو پر جیل سے باہر نکلے تو انہو ں نے کسی سے کوئی انتقام نہ لیا کیونکہ انہیں ایک قوم تشکیل دیناتھی انہوں نے سفید اور سیاہ فام میں نفرت بڑھانے کی بجائےانہیں ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ ایک ٹروتھ کمیشن بنایا، جہاں ظلم کرنے والوں نے اپنے مظالم کا کھل کر اعتراف کیا، جس پر انہیں معاف کر دیا گیا۔ پاکستان میں بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی، سیاستدانوں، ججوں، سرداروں، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، پراپرٹی ٹا ئیکونز کو ٹروتھ کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنی 75 سالہ غلطیو ں کا اعتراف کرنا ہوگا اور سب کو مل کر ایک ایسا چارٹرآف ڈیموکریسی تشکیل دینا ہو گا جس میں تمام فریقین کو پابند کیا جائے کہ اختلافی معاملات کوصرف اور صرف پارلیمنٹ میں ہی بحث کر کےحل کریں گے ۔ تمام پڑوسی ممالک سے جس میں ہندوستان سر فہرست ہے، فوری طور پر تجار ت بحال کرنا ہوگی۔ طلبہ یونینز کو بحال کرنا ہوگا تاکہ خاندانوں کی بجائے طلبہ یونینز ارتقا پذیر سیاسی لیڈر پیدا کریں۔ اشرافیہ پر ڈائریکٹ ٹیکس لگانا ہوگا تاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ہندوستان کی طرح کم از کم اٹھارہ فیصد تک پہنچ جائے۔غرض اس ٹروتھ کمیشن کے ذریعے ایک ایسا چارٹر آف ڈیموکریسی عمل میں لا یا جائے جس سے ریاست اور لوگوں کے درمیان ایک رشتہ پیدا ہو، ریاست میں رہنے والی تمام قوموں کو انکے سیاسی حقوق ملیں تاکہ ملک کو جمہوریت اور سویلین سپرمیسی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)