محبِ وطن شخصیت

May 28, 2023

پانچ مئی 2023 کا دن تھا کراچی ایئرپورٹ کے پرانے ٹرمینل کا لائونج صحافیوں سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا ،تمام صحافی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے انتظار میں تھے جو بھارت کا دورہ مکمل کرکے کراچی پہنچنے والے تھے اور پریس کانفرنس کرکے قوم کو دورہ بھارت کے حقائق اور نتائج سے آگاہ کرنے والے تھے، میں بھی ان کی پریس کانفرنس کے انتظار میں تھا ، چند لمحوں بعد ہی وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ ہشاش بشاش اور مسکراتے ہوئے لاونج میں داخل ہوئے ان کے ساتھ سیکریٹری خارجہ بھی تھے ، چاق چوبند ڈاکٹر اسد مجید خان کو دیکھ کردلی خوشی بھی ہوئی کیونکہ جاپان سے ان کا گہر ہ تعلق رہا ہے ، انھیں دیکھتے ہی ان کے جاپان میں دورِ سفارت کی بہت سی یادیں بھی تازہ ہوگئیں ،پریس کانفرنس کے بعد وزیر خارجہ صحافیوں سے گھل مل گئے اور دورہ بھارت کے حوالے سے نجی گفتگو کے سبب سیکریٹری خارجہ سے ملاقات نہ ہوسکی ، وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے حوالے سے تو سات مئی کوروزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اس دورے کا تجزیہ پیش کرچکا ہوں لیکن سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید خان جو امریکہ اور یورپ سے قبل جاپان میں بھی پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اور جاپانی زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، ان کے دورسفارت کی کچھ یادیں قارئین سےشیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ قارئین یہ جان سکیں کہ وزارت خارجہ نے ایک بہترین آ فیسر سیکریٹری خارجہ جیسے حساس ترین عہدے کیلئےمنتخب کیا ہے جو انتہائی محنتی اور محب وطن شخصیت کا مالک ہے ، یہ اکتوبر دوہزار سترہ کے وسط کی بات ہے ایک جاپانی دوست کے توسط سے ایک جاپانی تعمیراتی اور مالیاتی کمپنی کے سربراہ سے ملاقات ہوئی جو پاکستان یا بھارت میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے تھے، اس حوالے سے کافی ہوم ورک بھی کرچکے تھے اور اگلے چند دنوں میں بھارت کا دورہ کرنے والے تھے ،میں نے انھیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور ان کی سفیر پاکستان سے ملاقات کرانے کی پیشکش کی ، ان کی رضا مندی کے بعد میں نے سفیر پاکستان سے رابطہ کیا تو معلوم ہواکہ وہ اگلے روز صبح ساڑھے دس بجے ٹوکیو سے باہر جاپان کی کسی کمپنی کے سربراہ سے ملاقات کیلئے روانہ ہورہے ہیں ،لیکن مذکورہ کمپنی کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا امکان دیکھتے ہوئے انھوں صبح نو بجے کمپنی کے وفد کو سفارتخانے آنے کی دعوت دی ، میں بھی اس ملاقات میں موجود تھا جہاں سفیر پاکستان ڈاکٹر اسد مجید خان نے بہترین اور روانی سے جاپانی زبان میں جاپانی سرمایہ کاروں سے گفتگو کرکے ان کے دل موہ لئے ،نتیجہ یہ نکلا جاپانی کمپنی نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی ، صرف یہی نہیں بلکہ بہت سی سرمایہ کاری ان کے بہترین اخلاق اور جاپانی زبان میں گفتگو کرنے کے سبب پاکستان منتقل ہوئی ، آج حکومت جاپان کی جانب سے پانچ لاکھ افراد کو ورکنگ ویزے پر جاپان بلانے کیلئے جن ممالک کا انتخاب کیا گیا ہے ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام ڈلوانے میں بھی ان کی کوششیں شامل ہیں کشمیر کاز کیلئے بھی ڈاکٹر اسد مجید خان کی کوششیں قابل تعریف ہیں انھوں نے جاپانی حکومت کے ہر فورم پر ڈپلومیسی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ،صرف یہی نہیں بلکہ وہ جاپان کے سابق عالمی شہرت یافتہ ریسلر اینوکی ،جو جاپانی رکن پارلیمنٹ بھی تھے، کوہر سال 23 مارچ کو ہونے والی یوم پاکستان کی تقریب میں بلواتے ،اینوکی مسئلہ کشمیر کے حل کے بہت بڑے داعی تھے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جاپانی حکومت کا کردار چاہتے تھے اور پاکستان کے بہترین دوست تھے بلاشبہ اس میں سفیر پاکستان کی کوششیں شامل تھیں ، انہوں نے جاپان میں مقیم پاکستانیوں کیلئے آن لائن شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجراء کیلئے بھرپور کوششیں کیں اور آج بھی جاپان میں مقیم پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھارہے ہیں ، انھوں نے کمیونٹی کے مسائل کے حل میں گہری دلچسپی لی، پاک جاپان بزنس کونسل کی ایک تقریب جس میں شاہد آفریدی ، جہانگیر خان اور یونس خان جیسے اسٹارز شریک تھے ،اس میں چھ گھنٹے کا سفر طے کرکے ناگویا پہنچے اور تقریب کو رونق بخشی، ان کے امریکہ میں دور ِسفارت میں سابقہ حکومت نے ان کے ایک سفارتی خط کو جس طرح سیاست کے لئے استعمال کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی بلاشبہ وہ ایک تکلیف دہ عمل تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک محنتی اور محب وطن شخصیت کے مالک ہیں اور جاپان میں رہنے والے پاکستانی آج بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کا جاپان میں پاکستانی کمیونٹی سے گہرا تعلق رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)