قوموں میں فرق

May 28, 2023

نا ئن الیون سے کچھ عرصہ قبل پشاور کی ایک فیملی سیاحتی ویزے پر امریکہ آئی اور نیویارک کی قریبی ریاست نیو جرسی کے ایک قصبے میں رہائش پزیر ہوگئی۔ میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل تعلیم یافتہ کنبہ اجنبی لیکن مددگار معاشرے میں نئے آنے والوں کی طرح جدوجہد کررہا تھا۔ خاندان کے سربراہ کو ورک پرمٹ نہ ہونے کے باوجود کسی دوست کے توسط سے نوکری مل گئی اور بچے اسکول میں داخل ہوگئے۔ چند ماہ میں انھوں نے استعمال کی اشیاء، نیا فرنیچر اور اچھی حالت میں چلتی ہوئی گاڑی خرید لی۔ اس کنبے کو امید تھی کہ جلد یا بدیر انکو گرین کارڈ مل جائے گا ۔ گیارہ ستمبر 2001کو چند انتہا پسندوں نے مسافر بردار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کر کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر نیویارک اور دفاعی ہیڈ کوارٹر پینٹا گون سے ٹکرا دیا جس سے ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک ہوگئے۔ اس حملے کے تین چار روز بعد وہ کنبہ ہمارے گھر آیا تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے اٹھنے والا دھواں کھڑکی سے نظر آرہا تھا۔ پورے امریکہ کی طرح گھر کا ماحول افسردہ تھا بچے سہمے ہوئے تھے ہر طرف بے یقینی کا عالم تھا۔ خاندان کے سربراہ نے بتایا نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے اور سیکورٹی کے اداروں نے انھیں کہا ہے چونکہ وہ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں اسلئے ازخود ملک چھوڑ جائیں ورنہ انھیں ملک بدر کر دیا جائے گا، وہ چاہتے تھے ان کا سامان اور گاڑی اونے پونے بک جائے تو وہ رقم لے کر ملک چھوڑ جائیں۔ نائن الیون کے بعد ہزاروں مشکوک خاندانوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ سیکرٹ ایکٹ کے نفاذ کے بعد تمام شہری اور انسانی حقوق سلب کر لئے گئے ۔ بچے اپنے والدین، بیویاں اپنے شوہروں سے جدا ہوگئیں۔ پورے ملک میں مسلمانوں کی نقل و حرکت اور سوشل میڈیا کو مانیٹر کیا جانے لگا۔ حساس اداروں، اعلیٰ عہدوں اور بعض تعلیمی پروگراموں میں مسلمانوں کی اسکریننگ انتہائی سخت کردی گئی۔ مسلمان ملکوں سے آنے والوں کیلئے مختلف ویزوں کا حصول مشکل کردیا گیا۔ ان تمام تر سختیوں کے باوجود امریکی عوام،شہری اورانسانی حقوق کے ادارے حکومت اور ہوم لینڈ سیکورٹی کے اقدامات پر خاموش رہے۔ جنوری 2021میں صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد صدر ٹرمپ کے چند ہزار حامیوں نے واشنگٹن کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا۔ سوشل میڈیا کےذریعے ترغیب و ہدایات ملنے پر دائیں بازو کے نسل پرست اور دوسرے انتہا پسند جیتنے والے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کا راستہ روکنے کیلئے پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوگئے۔ امریکی پولیس اور تحقیقاتی اداروں نے مختصر مدت میں تمام حملہ آوروں کو شناخت اور تحقیقات کے بعد گرفتار کر لیا اورسبھی کو سخت سزائیں دی گئیں ۔پورے ملک میں کہیں کوئی آواز بلند نہ ہوئی کیونکہ تمام تر شہری آزادیوں کے ساتھ وہاں قانون کی حکمرانی ہے اور ریاست و ریاستی اداروں کیخلاف کوئی قدم اٹھانا ناقابل معافی جرم ہے۔ چند روز قبل جناح ہاؤس جو کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے اس کے سامنے سے گزرا تو بڑی تعداد میں بچے، بڑے اور فیملیز گیٹ کے اندر جا رہے تھے جبکہ میڈیا کی گاڑیاں بھی باہر موجود تھیں۔ گاڑی ایک طرف کر کے میں بھی بوجھل دل کیساتھ جناح ہاؤس داخل ہوگیا جہاں جلی ہوئی عمارت میں ٹوٹے ہوئے شیشے اور ملبہ ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔ نو مئی کو شرپسندوں کے منظم جتھوں نے جناح ہاؤس لاہور کے علاوہ جی ایچ کیو راولپنڈی، شہداءکی یادگاروں اور چند شہروں میں فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا اور اربوں روپے مالیت کی املاک اور سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کیا ۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے ویڈیو کلپس اور دوسرے شواہد کی بنا پر ایک جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس افسوسناک واقعے کا ذمہ دارٹھہرایا گیا اور بڑے پیمانے پر مقدمات درج کرکے گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب پوری قوم عدم یقین اور غم و غصہ کا شکار ہے اس سانحےکے ذمہ دار مٹھی بھر افراد کے خلاف تمام دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو بھی کھل کر اس ملک دشمن سازش اور سانحے کی مذمت کرنی چاہئے تھی مگر ان کے مبہم اور غیر واضح موقف سے نہ صرف عوام بلکہ ان کی پارٹی کے اندر بھی شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے اور پارٹی کے تقریباً تمام بڑے لیڈر اور سیاسی رہنماپارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ مجھے یقین ہےکہ پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکنان کی غالب تعداد محب وطن ہے اور ملک کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی فوج کو اپنا محافظ اور امید کی کرن سمجھتی ہی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا ہمسایہ دشمن ملک بھارت اندرون و بیرون ملک مقیم چند غدار خرید کر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف منظم مہم چلارہا ہے اور معصوم محب وطن لوگ انکے پروپیگنڈے کا شکار ہورہے تھے مگر اب لوگوں پر حقیقت آشکار ہو چکی ہے۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے ہم نو مئی یا اس سے قبل ریاست کے خلاف ہونے والے جرائم کو سیاسی رنگ دیکر ملک دشمن عناصر کو بچ نکلنے کا موقع دیتے رہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو چاہئے کہ نو مئی کے واقعات کے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیں، ذمہ داران کو نہ صرف قرار واقعی سزا دیں بلکہ ان سے اربوں روپے کے نقصانات کا معاوضہ بھی وصول کیا جانا چاہئے۔ تاہم بے قصور یا بہکاوے میں آنے والے کارکنان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہئے۔ ملک میں امن اور اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس سانحے کے اصل ملزمان کو بلا تفریق و تخصیص انصاف کے تقاضوں پر تولا اور ناپا جائے اور کمزور ، طاقتور ، امیر ، غریب کی بنیاد پر لوگوں کو چھوڑ دیا گیا یا سزا دی گئی تو ملکی حالات میں بہتری کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)