بھارتی امن کی آشا

May 28, 2023

بھارتی سفیر لامبا کی کتاب In pursuit of Peace پر تجزیہ

بھارتی سفیر آنجہانی ستیندر کمار لامبا کی یادداشتوں سےچھ وزرائے اعظم کے تحت بھارت کے پاکستان سے تعلقات کے بارے میں بہت سی نئی باتوں کا پتا چلتا ہے۔ یہ مفصل یادیں تین دہائیوں پرمحیط اس دورکی ہیں جب انھوں نےبراہ راست یا بالواسطہ، ان ہی کے مطابق، مذہب کی ’ناپائیدار‘ بنیاد پر ’’تقسیم کا پریشان کن شاخسانہ‘‘ پاکستان سے متعلق بھارت کی پالیسی کو نبھایا۔

یہ کتاب ایک ایسے مخالف (پاکستان) کی مسلسل تضحیک سے بھری ہوئی ہے جو ان کے مطابق برابری کی بنیاد پراس لئے بات چیت کے لائق نہیں کیوں کہ وہ مسلسل’’فریب کار‘‘ رہا ہے۔ تاہم وہ ’امن کی جستجو میں‘ اپنی سفارتی چالوں کو ایک بڑے بھائی، کے نقطہ نظر سے پیش کرتے ہیں۔

بلاشبہ وہ ایک ایسے سفارت کار تھے جنھوں نے خود کو ایک امن ساز کے طور پر پیش کیا مگربھارتی وزارت خارجہ کی متعین راہ سے کبھی انحراف نہیں کیا جو پاکستان کے دفتر خارجہ ہی کی طرح اپنی ہٹ کا پکا ہے۔ لاہور میں ساؤتھ ایشین فری میڈیا فاؤنڈیشن (سیفما) کے ایک استقبالیہ میں بھارت کےاس وقت کے وزیر خارجہ شری نٹور سنگھ نے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کو زندہ رکھنے کیلئے پاکستان کے دفتر خارجہ کے بابوئوں کی صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے دفاتر خارجہ کے سفارت کار ایک جیسے ہی اہل ہیں اور وہ ایک دوسرے ملک کےدفتر خارجہ میں یکساں طور پر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ انتہائی قنوطی انداز میں، لاہوریوں نے ادلے کےبدلے پر مبنی سفارتی تعطل کے لاحاصل کھیل کو برقرار رکھنے کی مضحکہ خیزی کی تعریف کی تھی۔

حیرت کی بات نہیں کہ ان کی یادداشتوں میں انہیں اپنی حکومتوں میں سے کسی ایک میں بھی غلطی نہیں ملی جن کیلئے انھوں نے اتنی دیانتداری سے کام کیا، سوائے پڑوسیوں کے ساتھ بلا صلہ رعایتی تعلقات کے نظریے کےحامل وزیر اعظم آئی کے گجرال، جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ 'پاکستان کیلئے نرم رویہ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ سیاچن جیسے غیر ضروری طور پر الجھائے گئے مسئلے پر بھی وہ اس قدرہٹ دھرم ہیں کہ انہوں نے لکھا کہ ’’راجیوگاندھی اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والی بات چیت تزویراتی مواد سے خالی تھی، جس میں ریکارڈ شدہ پوزیشنوں سے باہمی انخلا اور ایک مشترکہ غیر فوجی علاقہ کے قیام پر توجہ مرکوز تھی۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے باعزت استثنا کے علاوہ انھوں نے امن کیلئے سرحد پار سےکیے گئے کسی پاکستانی اقدام کی تعریف توکجا ، اس کا ذکر تک نہیں کیا۔

تاہم، وہ کسی حد تک فیلڈمارشل ایوب خان اور جنرل ضیاءالحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ایک دوسرے کے بعد آنے والے فوجی حکمرانوں کے پس پردہ جرات مندانہ اقدامات کے معترف ہیں۔ ان کے ساتھ، اسلام آباد میں متعین متعدد سابق بھارتی ہائی کمشنروں کے درمیان اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ بھارت کو پاک فوج کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔

سفارت کار لامبانہ تو سویلین قیادت کے مخمصے کیلئے ہمدردی رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ پاکستان کی ایک بہت متحرک سول سوسائٹی کو کوئی اہمیت دیتے ہیں جو مارشل لا اور جنگ خواہوں کے خلاف مسلسل لڑ رہی ہے۔ گمراہ پاکستانی محب وطنوں کیلئے، ان کی یادداشتیں ایک تازیانہ ہیں کہ کس طرح ایک کے بعد ایک آنے والے آمروںنے ایک جانب ’’ابدی دشمن‘‘ کا کارڈ کھیلا تو دوسری جانب بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے/امن اور تعاون کے معاہدوں کی مسلسل کوششیں کیں۔ یہ ان پاکستانی عقابوں کیلئے چشم کشا ہے جو اپنے آقاؤں کے کہنے پر بھارت مخالف شاونزم کا ڈھول پیٹتے رہےہیں۔

خونیں تقسیم کا ایک بے گھر ہوا بچہ ایک ’مہاجر ریاست‘ سے نقل مکانی کرنے کے بعد وہ نہ صرف مذہب کی ’ناقابل عمل‘ بنیاد پر پاکستان کے قیام کے خلاف اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے مرضی کے حوالہ جات چنتا ہے، بلکہ اقلیتوں کے اس مسئلہ کو بھی نظر انداز کرتا ہے جو، پاکستان میں بنیاد پرستی اور ہندوستان میں ہندو اکثریتی قوم پرستی یعنی ہندوتوا کے بڑھاوے کا باعث ہے اور جو اب بھی برصغیر کے ممالک میں حل ہونا باقی ہے ۔

مصنف محمد وسیم (پاکستان میں سیاسی تنازع) کے مطابق: 1947 میں پاکستان ہندوستان سے نکل گیا۔ لیکن بھارت پاکستان سے نہیں نکلا۔ اسی سے تمام فرق پڑا۔ پاکستان میں پہلے بڑے تنازع کی ابتدا پاکستان کے خود کو ڈیانڈینائز کرنے کی لازمی ضرورت میں دیکھی جا سکتی ہے... یہ نئے دوسرے یعنی ضد کے ساتھ الجھے رہنے کا ایک لاشعوری اور فطری عزم بن گیا، بنیادی طور پر سرحد کے اس پار، بلکہ اندر بھی (یعنی مذہبی تفرقے کو برقرار رکھتےہوئے) ... (بعد ازاں) مذہب کے بطور قومی شناخت کے نشان اور تشکیل دینے والے عامل کے طور پر پاکستان میں پہلےاور ہندوستان میں ایک یا دو نسل بعد فروغ پایا ہے۔

رنبیر سمدر (تعارف- ریاستوں اور ذہنوں کی تشکیل نوکرتی تقسیم ') پوچھتےہیں، تو کیا تقسیم ایک ’ترک تعلق‘، ایک رشتے کا ٹوٹنا تھی، کہ جواہر لال نہرو نے سوچا کہ ’’تقسیم کے منصوبے نے ایک راستہ پیش کیا اور ہم نےاسےاختیارکر لیا‘‘۔ لیکن، سنجے چترویدی (جیو پولیٹکس کی زیادتی: برٹش انڈیا کی تقسیم) سوال کرتے ہیں: ’’کیا مذہبی تقسیم یا پارٹیشن تنازع کا حل ہے یا خود تنازع کی (مستقل) افزائش کی بنیاد (برقرار رکھتی ہے)‘‘۔ بھارت میں، تقسیم کو ہندوستانی تہذیب کی ’’عظیم تقسیم‘‘ کے طور پر دیکھا گیا جس پر رومیلا تھاپر جیسے ممتازمورخین نے ایک واحد قوم یا آریائی ’نسل‘ یا تہذیب (’ابتدائی ہندوستان‘) کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ۔ (جاری ہے)