سیاست نہیں ملکی زراعت بچاؤ

May 30, 2023

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ مگر ٹماٹر ایران سے آتا ہے، دیگر سبزیاں بھی کبھی بھارت سے آتی ہیں تو کبھی افغانستان جیسا ملک ہمیں فروٹ بیچ رہا ہوتا ہے۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں ہر سال ہمیں گندم بیرون ملک سے مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے ، جس کی ایک بڑی آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے ؟ اس وطن میں اللہ نے ہمیں ہرقسم کا موسم دیا، ریگستان ،سرسبز کھیت اور اونچی اونچی پہاڑی چوٹیاں دیں مگر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے عوام کا خوراک کی کمی کا مسئلہ نہیں حل کر پارہے،زراعت سب سے اہم ہے کیوں کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ 22.67فیصد ہے اور مجموعی روزگار میں اس کا حصہ 38فیصد ہے۔ حالانکہ جتنے وسائل اس دھرتی کے پاس ہیں اس لحاظ سےیہ بہت کم ہے۔ بدقسمتی سے زرعی زمین ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں، جس میں سب سےا ہم حکومتی دلچسپی کا کا فقدان ہے، جبکہ جدید تکنیکی ترقی سے دوری، تحقیق اور ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی، کم سرمایہ کاری، شرح سود میں اضافہ اور کسانوں اور زمینداروں کےلئے حکومتی سطح پر ٹریننگ کے پروگرام نہ ہونا ہے۔کم پیداوار پاکستان کی زراعت کے ساتھ معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے ،ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں زیادہ تر صارفین کی قوت ِخریدسے تجاوز کر گئی ہیں اور ہماری برآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔ زرعی زمینوں کے ساتھ ہر حکومت نے کھلواڑ کیا ہے۔ زرعی زمینوں پر بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دی ہیں جہاں لاکھوں لوگوں کے لئے خوراک پیداکی جاتی تھی وہاں آج انسانوں کو سایہ دینے کے لئے درخت بھی نہیں ہے۔ یہ ظلم بہت پلاننگ کے ساتھ کیاگیا، عمران خان نےحکومت میں آتے ہی زرعی زمینوں پر نئی سوسائٹیوں پر پابندی لگا دی، اچانک بڑےبڑے صنعتکاروں نے اپنا پیسہ رئیل اسٹیٹ میں لگانا شروع کردیا ، پھر اچانک پابندی اٹھا دی گئی اور عمران خان نےٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کردیا جس میں کہا گیا کہ آپ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ نے زمین کہاں سے کس ذرائع سے لی، بڑی تعداد میں لوگوںنے ایمنسٹی سے فائدہ اٹھایا اور کوڑیوں کے بھائو میں خریدی گئی زمینیں ہر لحاظ سے قانونی ہوگئیں جن پر پھر عمران خان کے دور میں ہاوسنگ سوسائٹیاں بننا شروع ہوگئیں۔ خیر یہ تو ایک طریقہ ہے زرعی زمین ہڑپ کرنے کا، پھر زرعی زمینوں کو تباہ کرنے کا ایک سے ایک منصوبہ سامنے آیا۔ لیکن زراعت تباہ کرنے میں صرف عمران خان کا ہاتھ نہیں زراعت، لائیو اسٹاک، ماہی گیری اور جنگلات کے قومی پیداواری اہداف مقرر کرکے زراعت اور اس سے منسلک دیگر شعبوں میں جان ڈالنے کے لئے کوئی بڑی پالیسی ہمارے فیصلہ سازوں نے آج تک بنائی ہی نہیں ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ زراعت کے شعبے کے لئے کم از کم 10 سالہ پالیسی بنائے جس میں بیرون ملک سے ماہرین کو بھی شامل کیا جائے اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر بات چیت کی جائے۔ اس مقصد کے لئے ٹیکنوکریٹس کی ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے۔ اس میں تکنیکی ماہرین کے ساتھ ساتھ ماہرین تعلیم بھی شامل ہونے چاہئیں جو زراعت کے شعبے میں بیرون ملک سے پڑھ کر آئے ہوں،پہلے مرحلے میں دو اہم زرعی فصلیں، گندم اور کپاس، مویشیوں، دودھ اور گائے کا گوشت، اور ماہی گیری پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ جنگلات کی لکڑی کاٹنے اور جنگلات کو ختم کرنے والوں کو پاکستان کا مجرم قرار دیا جائے، جنگلات کا رقبہ مزید بڑھایا جائے اور جنگلات ختم کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت سزائیں پاکستان پینل کوڈ میں شامل کی جائیں۔ پاکستان کی مٹی زرخیز ہے مگر اس مٹی کو تباہ کیا جارہا ہے، کھیتوں میں جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ معیار کے بیجوں کی بروقت فراہمی کے ساتھ ساتھ رعایتی نرخوں پر زرعی مشینری کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ آبپاشی کے نظام کو مزید بہتر بنایا جائے اور ڈرپنگ کے ذریعے کھیتوں تک پانی پہنچانے کے لئے کسانوں کی مدد کی جائے کیونکہ جتنا پانی ضائع ہونے سےبچے گا اتنا ہی ہمارا مستقبل تباہ ہونے سے بچے گا، پانی کے علاوہ کھاد، جراثیم کش دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے معیار کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ملاوٹ پر قابو پانے کیلئے ایک فنکشنل ٹیسٹنگ لیبارٹری کی بھی ضرورت ہے، ضروری ہے کہ ایسی زرعی دواساز کمپنیوں پر پابندی لگائی جائے جن کی دوائوں سے زمین اور فصل تباہ ہورہی ہے ۔ پاکستان کو بچانا ہے تو زراعت کو بچانا ہوگا، اگر زراعت کےشعبہ میں مزید تباہی ہوئی تو بحیثیت قوم ہمارا تباہی سے بچنا مشکل ہوگا۔