2023-2024ءنیا مالی سال للکار رہا ہے

June 01, 2023

اپریل 2022ءسے تاحال قیام پاکستان کے 75سال، ڈائمنڈ جوبلی 14اگست 2022۔

متفقہ آئین 1973ءکے 50 سال ،گولڈن جوبلی 10 اپریل 2023۔

کامیاب ایٹمی دھماکوں کے 25سال ،سلور جوبلی 28 مئی 2023۔

کسی بھی ملک کے عوام کیلئے یہ تاریخیں کتنی مسرت اور انبساط کی ہونی چاہئیں اور جب وہ ایک ہی مالی سال کے اندر طلوع ہورہی ہو۔ مگر نہ جانے کس کی نظر لگی ہے! ہمارے حکمرانوں، اعلیٰ عہدیداروں کی نیت درست نہیں رہی یا ہمارے عوام یعنی ہم صحافیوں، ادیبوں، شاعروں،اساتذہ،صنعتکاروں، تاجروں، دکانداروں ، سرکاری ملازمین کی نیتیں صحیح نہیں رہی ہیں کہ وہ ایک سال جس میں یہ سب اہم دن آرہے تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ابتر ترین سال بن گیا۔ جب اقتصادی طور پر ہم پستیوں میں گر چکے ہیں۔ ایک ڈالر ہمارے ہاں 300روپے سے اوپر جارہا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ افراطِ زر کی شرح بھی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ شرح نمو 2فی صد سے 0.5فی صد پر بتائی جارہی ہے۔ کووِڈ کی وجہ سے یوں تو ساری دنیا کی معیشتیں زبوں حال ہیں مگر پاکستان کوکہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف کوئی بھی اچھی رپورٹ نہیں دے رہے ۔ ہمارے پڑوس چین اور بھارت کیلئےپیشنگوئیاں ہیں کہ وہ بہت آگے بڑھیں گے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت دنیا میں پانچویں بڑی معیشت بننے جارہا ہے۔ 2024ءمیں شرح نمو 6.7فی صد کہی جارہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ حکومت اور سب ادارے اگر معیشت پر توجہ دیں گے تو پاکستان 2024ءمیں 3.5فی صد تک شرح نمو حاصل کرسکتاہے۔ہم جولائی 2023ءسے نئے مالی سال 2023-2024ءکا آغاز کریں گے۔ آج سے شروع ہونے والا جون کا مہینہ ہی صرف ہمارے پاس ہے۔ جس بدحالی، افراتفری اور انتشار سے ہم دوچار ہیں۔ اس میں بجٹ بنانا ہی بہت مشکل ہوتا ہے۔ اچھے بجٹ یا عوام کیلئے ریلیف والا بجٹ تو سوچنا ہی نہیں چاہئے۔ بے شک پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور جو جو پارٹیاں پی ڈی ایم حکومت کا حصّہ ہیں۔ ان کی اجتماعی سوچ بھی یقیناً بجٹ سازی میں شریک ہو گی۔ مسلم لیگ اور پی پی پی کو گزشتہ کئی برسوں کی بجٹ سازی کا تجربہ بھی ہے۔ لیکن اعداد و شُمار یہی کہتے ہیں کہ اگر 1988ءسے تاحال اپنے بجٹ اچھے ہوتے اور ہم اقتصادی طور پر ترقی کررہے ہوتے تو یہ 75واں سال اتنی ابتری سے نہ گزررہا ہوتا۔ اپریل 2022ءسے اس حکومت اور سہولت کاروں کی ساری توجہ پی ٹی آئی کو کیفر کردار تک پہنچانے تک محدود رہی۔ جس میں بے حد کامیابی ہوچکی ہے۔ اس درخت کے بے شُمار پتے جھڑ چکے ہیں۔ اگرچہ جڑوں کو کوئی نقصان پہنچتا دکھائی نہیں دیا۔ اس ظاہری کامیابی کے بعد اب 22کروڑ کی قسمت کی ذمہ دار حکومت کو ملکی معیشت کے استحکام کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چاہئے۔

ماہرینِ معیشت بھی کوئی امید افزا باتیں نہیں کررہے ۔ حفیظ پاشا، مفتاح اسماعیل، شہباز رانا، مبشر زیدی، شاہد حسن صدیقی اور دیگر ٹی وی چینلوں پر آکر مزید ڈرارہے ہیں۔ لیکن ہم پاکستانیوں کو قدرت کی طرف سے بہت تسلی مل رہی ہے کہ پاکستان کی زرعی، زمینی، معدنی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔پھر ہمارا شاہراہوں، پلوں، بندرگاہوں، ایئرپورٹوں کا انتظام اتنا مضبوط ہے کہ ہم سری لنکا، صومالیہ اور ایسے دوسرے ملکوں کی طرح بالکل تباہی کی طرف نہیں جائیں گے۔اگر ہمارے حکمرانوں اور اداروں کاقبلہ درست ہوجائے اور وہ اپنے مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو فوقیت دیں تو معیشت کی بحالی کا سلسلہ آسانی سے شروع ہوسکتا ہے۔

اصل مسئلہ ہے۔ قومی سطح پر ترجیحات کے تعین اورسچ بولنے کا۔ بہت سے جھوٹ روزانہ بلا ضرورت بولے جارہے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر ہماری ضرورت سے بہت کم ہیں۔ قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا ہے۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت ختم کرنے کی کوششوں میں پاکستانی معیشت کی بہتری کو ترجیحات میں سب سے نیچے رکھا گیا۔ حالانکہ مستحکم معیشت بھی عمران کی عوامی طاقت کم کرسکتی تھی۔ ساری توانائیاں حکومت نے اور اداروں نے اس منفی عمل میں جھونک دیں۔ اب یقیناً عمران خان کی سیاسی حمایت بظاہر اتنی نہیں رہی جو 9مئی سے پہلے تھی۔ لیکن چنگاریاں سلگتی چھوڑ دی گئی ہیںجو ملکی بد حالی ، عدم استحکام، اچھی حکمرانی سے کوتاہ نظری کے باعث کسی وقت بھی بھڑکتے شعلے بن سکتی ہیں۔ الیکشن اکتوبر یا نومبر میں ہونے کی توقعات ہیں۔ جس کیلئے اسمبلیاں اگست میں تحلیل کی جائیں گی۔ نگراں حکومتیں بھی پی ڈی ایم کی اپنی ہوں گی کیونکہ پنجاب، کے پی کے میں تو یہ نگراں حکومتیں ہی چلیں گی۔ جو پی ڈی ایم کی بی ٹیموں بلکہ پنجاب کی نگراں حکومت تو پی ٹی آئی دشمنی میں پی ڈی ایم سے بھی کئی ہاتھ آگےدکھائی دیتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی اپوزیشن موثر نہیں ہے۔ وفاق میں اپوزیشن ہے ہی نہیں جو نگراں حکومت کے قیام میں رکاوٹ ڈال سکے۔

پی ڈی ایم اگر کچھ سیٹوں پر کسی افہام و تفہیم سے الیکشن لڑے گی تو مشکل نہیں ہوگی۔ اگر ساری جماعتیں اپنے اپنے ٹکٹوں پر کسی اشتراک کے بغیر لڑیں گی تو مشکلات ہوسکتی ہیں۔یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے حامی کروڑوں ووٹرز مایوسی میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح پی ڈی ایم کے پاس جون، جولائی اور اگست صرف تین مہینے ہیں۔ بجٹ کی منظوری کے بعد معیشت میں مزید ابتری ہوگی۔ انتخابی مہم میں عوام کو رام کرنے کیلئے ان پارٹیوں کے پاس کیا اشاریے ہوں گے۔

بظاہر تو میدان پی ڈی ایم کیلئے کھلا ہو گا۔ موجودہ چیف جسٹس، موجودہ صدر اپنی آئینی مدت پوری کر کے جا چکے ہوں گے۔ اس لئے سارے ادارے ان کیلئے مثبت ہوں گے۔ نوجوانوں میں سے اکثریت بیرون ملک جارہی ہے۔یعنی پی ٹی آئی کا ووٹر باہر جارہا ہے۔ میں نے کچھ اعداد وشُمار جاننے کی کوشش کی ہے۔ عالمی بینک کے 18ارب ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک کے 15ارب ڈالر، آئی ایم ایف کے 7.6ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ اپریل 2023سے جون 2026کے درمیان 77 ارب ڈالر کی ادائیگی لازمی ہے۔ سعودی عرب اور چین نے برے وقت میں ساتھ دیا۔ اب ان کی ادائیگی کا وقت بھی آگیا ہے۔ ہماری برآمدات درآمدات سے بہت کم ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ یہ قرضے ہم کیسے اتاریں گے۔

اس سارے تناظر میں 2023-2024ء کا مالی سال حکمرانوں، اداروں، عوام سب کیلئے بہت ہی مشکل اور صبر آزما ہوگا۔ قرضے بھی زیادہ ہیں۔ ملکی ضروریات اس سے زیادہ اور معیشت ارباب اختیار کی اولیں ترجیح نہیں ہے۔ سیاسی انتشار کو سمیٹا نہیں جا رہا ہے۔ 2023-2024ء کا مالی سال ہمیں للکار رہا ہے۔