پاکستان کا مستقبل:آئینی یا طرزِ کہن؟

June 06, 2023

راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم

امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہوا ہو

مصور پاکستان کا یہ شعر ان کی زندگی کے حالات حاضرہ ( جب یہ کلام وارد ہوا) کے تناظر میں ان کی دلی تمنا کا عکاس ہے ۔یہ دلی تمنا کیا تھی ؟فرنگی دور کی غلامی سمجھ لیں اندھیری رات میں، صبح آزادی کی تلاش میں کٹھن مسافت مسافروں کی بڑھتی تھکن کو آسان اور کم کرنے کے لئے شاعر ملت اپنے ٹوٹے دیے (کلام) سے گھپ اندھیرے کو نیم تاریکی میں تبدیل کرکے تھکے مسافروں کی ناہموار راہ کو قدرے رواں بنانے کا متمنی ہے ۔تاریخ تحریک قیام پاکستان کا سفر ایسا ہی کٹھن تھا صدیوں پر محیط گمشدہ سنہری دور کے بعد دم توڑتے ثقافتی و سیاسی تشخص کی بحالی، اور نئے تیزی پکڑتے جاری و ساری سیاسی نظام میں جگہ بنا کر سیاسی حقوق کا حصول بشمول تحفظ ملی تشخص یقیناً مشکل ترین ہدف کی کٹھن مسافت ہی تو تھی لیکن غلامی و تاریکی کے عذاب عظیم کو کم تر کرنے کے لئے ویرانوں میں شاعر کی جھونپڑی اور ٹمٹماتا ہوا دیا تو اس کی اپنی انفرادی پناہ کا مطلوب ماحول تھا لیکن قدرتی حسن و جمال کے ویرانے میں اقبال اپنے ٹوٹے دیےکو تھکے مسافروں کو روشنی اور آسانی کی فراہمی کا بھی ذریعہ بنانے کی تمنا دل میں بسائے ہوئے ہے۔گویا فکر ملت جس ویرانے میں بھی رہی ۔

تاریخ تحریک پاکستان کا مطالعہ و تحقیق آشکار کرتے ہیں کہ حصول پاکستان کی کٹھن و تاریک مسافت میں کبھی ہمارے اکابرین کی جلائی اٹھائی علم و عمل کی شمعیں اندھیروں کو نیم تاریکی میں تبدیل کرتے چراغ حتیٰ کہ اقبال کا خطبہ الہ آباد کی شمع میں تبدیل ہوئے کلام و ابلاغ نے کس طرح راہ قیام پاکستان کو روشن و ہموار کیا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فرنگی نے کمال و دانش سے برصغیر کو اپنی غلام کالونی بنانے کی اپنی حتمی کامیابی کے بعد اس عظیم ہدف کے حصول کو قابو میں رکھنے اور خطے کی ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں سب سے بڑی رولنگ کلاس اور جملہ مقامی مارشل ریلیز میں اپنی گرپ اور قبولیت دونوں کو ایک ٹیلر میڈ(من مانے)سیاسی ضابطے (پولیٹکل آرڈر) اور پبلک ویلفیئر پیکیج سے بلند درجے پر مقبول اور قبول کروایا ۔یہ حکمت عملی کتنے فرنگیوں کے تئیں کتنی ثمر آور تھی ہم پاکستان بنانے والوں نے اسے سمجھا اور اپنے تئیں برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کا عظیم مقصد حاصل کیا جو حکمت سے کروڑوں کے برصغیر کو غلام کالونی بنانے کے فرنگی کمال سے کم کمال نہیں ۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے نو آبادیاتی دنیا میں تحریک آزادی و قیام مملکت کی یہ سچی اور عظیم سیاسی درس و تدریس کی کہانی جدید تاریخ میں دلچسپ ترین اور جمہوریت پذیر معاشروں کے لئے بیش بہا سبق آموز باب ہے۔ فرنگیوں نے برصغیر پرجزواً دوسوسال اور کلیتاً ایک سو سال راج کیا۔ پہلےسو سال کمپنی کی حکومت مشرقی ہند میں قائم ہو کر اطراف اورشمال کی طرف پھیلی سوسال میں برطانوی راج میں مشکل میں دلی تک پہنچی اور قبضے کی تکمیل ہوئی۔ اوپن سیکرٹ فقط دو تھےٹیلر میڈ نیوپولیٹکل آرڈر(جو فرنگی سیاسی ضرورتوں کےلئے آئین و قانون پر بیس کرتا تھا) دوسرا پبلک ویلفیئر پیکیج اور راج میں مقامیوں کو مرضی کالیکن محدود مراعات یافتہ طبقے کو فراخدلانہ حصہ بشکل جاگیرو انتظامی اختیارات اور کلی اور حتمی اختیار کا اقتدار اعلیٰ (سورنٹی) گورا راج چھوڑ کر گیا تو اس سے قبل ہی برصغیر کی ہر دوسیاسی قوتوں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے اکابرین نے کمال حقیقت پسندی سے دونوں ہی فرنگی اوپن سیکرٹ، اپنے اپنے سیاسی اہداف کی بیس کے طورپر قبول کرلئے کہ یہ اندازہ 100 فیصد درست تھا کہ ان ہی کو اختیار کرنے سے اپنی اپنی مملکت کو استحکام و دوام ملے گا۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ بھی کسی طور پر ممکن نہ تھازمانہ بدل گیا۔ یعنی آئینی حکومت اور عوامی فلاحی منشور، ان کی اپنی اور اپنے میں سے ہی بنائی حکومت کے ذریعے۔ یہ وہ اضافہ تھا جسے ہم نے اپنے اپنے ٹیلر میڈ آئین و قانون کے مطابق ہر حال میں کرنا تھا، کیا ہم نے کیا؟ بھارت نے بڑی سرعت کے ساتھ عین مطلوب کےمطابق ممکنہ حد تک آئین سازی کی اور ہندو اکثریت کے سیکولر بھارت میں بدستور سخت نظر انداز طبقے کے بڑے دماغ ڈاکٹر بھیم رائو ایمبیڈکر نے ہزاروں سال سے ذات پات اور نسلی تعصبات سے اَٹے معاشرے میں بھی سیاسی استحکام کو یقین بنانے والا آئین دے کر اسے دنیا کے سب سے مفصل اور اسمارٹ کانسٹی ٹیوشن کے طور پر منوا لیا۔الگ بات ہے اب ہندو بنیاد پرستی اس کےلئے چیلنج بن گئی۔پاکستان بنتے ہی اس ناگزیر اور فوری مطلوب ضرورت (آئین) کے ساتھ کیا ہوا۔ اب تو قوم اس سے کافی آگاہ ہوگئی حتیٰ کہ نئی نسل بھی، جتنا سمجھ گئی ہے بڑے چھوٹے سب مضطرب ہیں۔

سیاسی عدم استحکام اور اس سے نکلے بحران انتہا پر۔ 56ء کے متفقہ آئین سے عدم اتفاق، انفرادی ٹھونسنے، اسی مسئلے پر آدھا ملک گنوانا، ہوئی ترقی جاریہ (SUSTAINABLE) کی بجائے ببل ڈویلپمنٹ ثابت ہوئی۔ غلطیوں کے اعتراف سے موجود متفقہ آئین بنایا تو نافذ کرتے ہی اس کے ساتھ بدسلوکی کرکے سول ڈکٹیٹر شپ کی نام نہاد سول سپرمیسی قائم کی گئی۔ اسی چھتری میں خلاف آئین دھاندلیوں سے اٹے الیکشن، قومی احتجاج پر بمطابق آئین کرانے میں ٹال مٹول پھرمارشل لا۔ آئین بحالی پر پھرادھورا نفاذ، مقامی حکومتوں سے عملاً انکاری، کراچی میں آج بھی جاری۔ شدت سے مطوب عام انتخابات کی راہ میں کنٹینر لگتے نظر آ رہے ہیں۔ پنجاب و خیبر حق رائے دہی سے محروم اور ’’نگرانوں‘‘ کا فسطائی تسلط۔ قومی معیشت ٹھکانے، قومی اتحاد برباد، ریاستی ادارے نحیف و منقسم۔ آئین کی تشریح مرضی کی، پارلیمان ادھوری، وفاقی حکومتی سیٹ اپ سخت لاپروا و عیاش اور خطرناک حد تک کھلنڈرا۔

قوم طرز کہن (نظام بد) بدترین اندھیرے میں، عوام کے دل و دماغ جمہوریت سے منور، لیکن ’’نگرانی اندھیرے‘‘ میں عالم خوف و مایوسی میں قوم بھٹک رہی ہے یا نوجوان سرحدوں سے پار نکلنے کی راہوں کے متلاشی، گمراہی نے پورے پاکستان پر چادر تان دی۔ آئین و آزادی کی شمعیں روشن کرنا تو ایک طرف دیے بھی بجھائے جا رہے ہیں۔ قوم نگرانی فسطائیت سے خوفزدہ اور چمک سے بنی حکومت آئین و الیکشن سے۔ بہت کٹھن منزل ہے۔ شمع و الائو بہت مشکل چراغ جلائو چراغ، ٹوٹے دیے ہوں یا چراغ سے چراغ۔

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہ ہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)