قیادت کا قحط

June 06, 2023

پاکستان میں اس وقت قائدین کی بہتات ہے لیکن قیادت کا قحط ہے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستانی قوم ابھی تک ایک حقیقی قائد کی راہ تک رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم قیادت کے اوصاف سے مزین تھے لیکن انہی اوصاف کی وجہ سے وہ غیر طبعی موت کا شکار ہو کر خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔تب سے آج تک سیاست کے میدان پر’’ بونوں ‘‘کا قبضہ ہے۔اگر کسی قد آور شخص نے یہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑنے کی کوشش کی تو تمام سیاسی بونے اسی پر حملہ آور ہوگئے اور اسے دیوار سے لگانے میں ایک حد تک کامیاب رہے۔لیڈر کا صرف یہ کام نہیں کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت کرے بلکہ قائد تو وہ ہوتا ہے جو بکھرے ہجوم کو ایک قوم بنا دے۔1947 میں ایک قائد نے، بکھرے ہجوم کو ایک متحد قوم بنا ڈالا تھا۔لیکن پھر ہماری کم نصیبی دیکھئے وہی قوم ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی جو نہ تو قیادت کے معیار پر پورا اترتے تھے نہ ہی شخصی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں ہی یہ قوم ایک مرتبہ پھر بے ہنگم ریوڑ میں تبدیل ہوگئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے قیادت کے لئے جن تین خوبیوں کا ذکر کیا تھا وہ ہمارے قائدین میں عنقا ہیں۔نگاہ بلند تو کیا ہونی تھی انہیں اپنے مفادات کے آگے کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ہے،سخن دلنواز کی تمنا کی گئی تھی یہاں تو زبانیں شعلے اگلتی ہیں۔اقبال نے جس میر کارواں کی تمنا کی تھی وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ہماری قسمت میں نہ آسکا۔مختار مسعود لکھتے ہیں کہ اچھے لوگ قدرت کا انعام ہوتے ہیں اور اگر ان کی قدر نہ کی جائے تو قدرت روٹھ جاتی ہے اور یہ انعام واپس لے لیا جاتا ہے اور آئندہ کے لئےانعامات کا سلسلہ ختم کردیا جاتا ہے۔قائد اعظم کی ناقدری کے بعد قدرت ہم سے روٹھ چکی ہے اور ایسے لوگ ہماری قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں جو اس کشتی کو کنارے لگانے کے بجائے اسے دریا برد کرنے کے درپے ہیں۔سیاست کے میدان میں وہ دھول اڑ رہی ہے کہ کسی کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا،آوازوں کا وہ شور ہے، کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دےرہی،70 سال سے دائرے میں سفر جاری ہے،نہ منزل سامنے ہے نہ نشان منزل۔قیادت کے بحران کے بطور قوم ہم سب ذمہ دار ہیں۔ہم لوگ ڈاکٹر،انجینئر،ماہر معاشیات،بنانے کے لئےوقت اور پیسہ صرف کرتے ہیں،ہمارے تعلیمی ادارے ہر نوع کے مضمون میںماہرین پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن سیاست کے میدان کی طرف کسی کی توجہ نہیں،کسی دور میں کالج اور یونیورسٹیوں سے قائدین نکلتے تھے لیکن آج تو ہر لائق بندہ سیاست کو اپنے لئے شجر ممنوعہ سمجھتا ہے۔

کاش ہمارے ملک میں بھی ایسا ماحول بنے کہ جس طرح مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کاروباری گروپ،یونیورسٹیوں کے قابل طلباء کو ان کی فراغت سے پہلے ہی ملازمت کی پیشکش کر دیتے ہیں۔ اور فوراً ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں، اسی طرح ہماری سیاسی جماعتیں بھی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کا انتخاب کریں۔تمام سیاسی جماعتیں اپنے عہدوں کا بیس سے پچیس فیصد نوجوانوں کے لئے مختص کریں،اور پھر ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو کام کرنے کا موقع بھی دیں،تمام عہدے گھر میں رکھنے کے بجائے اہل اور قابل نوجوانوں کو دیے جائیں،تب جا کر سیاسی جماعتوں کا ماحول تبدیل ہوسکتا ہے۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جس طرح ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے،ایک لمبی مشقت سے گزرنے کے بعد وہ کسی شعبے کا ماہر بنتا ہے،اسی طرح سیاست میں بھی ایک طویل جدوجہد اور صبر آزما مشقت ہے،یہاں بھی ایک دن میں کوئی لیڈر نہیں بن سکتا،جو لوگ صرف موروثیت کی بنا پر جماعتوں کے منصب سے چمٹے ہوئے ہیں ان کی کارکردگی دیکھیں تو شرم سے سرجھک جاتا ہے،اگر ان عہدوں پر اہل اور لائق لوگ براجمان ہوتے تو پارلیمان اور سیاست کا وقار بڑھ جاتا۔سانحہ 9 مئی بلا شبہ ایک بڑا اور قابل مذمت واقعہ تھا لیکن اگر گلی محلہ کی سطح پر قیادت موجود ہوتی تو یہ واقعہ وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔مقامی قائدین ہی اس بے قابو ہجوم کو کنٹرول کرتے۔،ذرا دیکھیں تو سہی کہ اس وقت کون ہے ایسا شخص جو پورے ملک کو ایک لڑی میں پرو سکے،اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرکے عمل درآمد کی طرف آنا پڑے گا۔سیاسی جماعتوں کو الیکٹیبلز کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے قائدین کی تیاری پر بھی وقت صرف کرنا پڑے گا۔ہماری قوم کو ایک مرتبہ پھر اجتماعی طور پر تعلیمی اداروں کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔میری دانست میں قیادت کے موجودہ ہمہ گیر بحران سے قائد اعظم یونیورسٹی،گورنمٹ کالج یونیورسٹی،جامعہ کراچی،جامعہ پنجاب،جامعہ بہاولپور،لمز،نسٹ،آغاخان جیسے تعلیمی ادارے ہی نکال سکتے ہیں۔طلبا یونین سیاسی قیادت کی پیداواری نرسری رہی ہیں لیکن کراچی اور پنجاب میں طلبہ سیاست کے نام پر جو مکروہ کھیل کھیلا گیا،کتنے نوجوان اس کھیل کی بھینٹ چڑھے اور جھتوں نے جس طرح تعلیمی اداروں پر قبضہ کئے رکھا وہ ایک شرمناک تاریخ ہے۔لہذا طلبہ یونین کےمروجہ تصور سے نکل کر ہمیں سیاسی قیادت کی تیاری پر توجہ دینا ہوگی۔اس وقت یہ ذمہ داری اہل دانش اور اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے کہ آنے والی نسل کےلئے پڑھے لکھے روشن خیال اور محب وطن نوجوانوں پر مشتمل قیادت تلاش کریں۔اور انہیں سیاسی جماعتوں میں کردار ادا کرنے کا موقع دیں۔ ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں اہل سیاست، جیل اور کال کوٹھری سےبےخوف ہوکر ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں تب ہی اس بحران کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔