کھلاڑی یا اناڑی؟

June 06, 2023

میں جب عمران خان کے حوالے سے کچھ بھی تحریر کرتا ہوں جو میرے دوستوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچتا ہے، تو اکثر دوست فرماتے ہیں کہ آپ عمران خان کے خلاف لکھتے ہیں، حالانکہ میں تو عمران خان کا پرانا شیدائی ہوں اس زمانے سے جب وہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور کہانیاں سناتے تھے کہ کیسے اپنے کزن کے کہنے پر انھوں نے کرکٹ پر پیسہ لگایا اس زمانے سے ہم عمران خان کی صلاحیتوں کے گرویدہ ہیں، اگرچہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کو معیشت، سیاست اور سفارتکاری جیسے بہت سے شعبوں میں جانچا جاتا ہے اور ان شعبوں سے ان کی کارکردگی کا موازنہ کیا جاتا ہےلیکن ایک اہم شعبہ جس میں عمران خان نے لوگوں کو قدرے مایوس کیا وہ کھیلوں کا شعبہ تھا۔ عمران خان نے باقی تمام شعبوں میں تو صرف ناکامی کمائی مگر ایک کھیل ایسا شعبہ تھا جس میں وہ کوئی کارنامہ انجام دے سکتے تھے مگر اس کھلاڑی نے کھیلوں کے شعبے کو بھی تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اس کی دو وجوہات ہیں۔ لوگ سمجھتے تھےکہ چونکہ عمران خان بڑے کھلاڑی ہیں لہذا سیاستدان بھی بڑے ہوں گے، اور بڑے کھلاڑی اور بڑے سیاستدان تو بڑے کام کرتے ہیں مگر خان کا ہر کام سطحی طور پر چھوٹا نکلا۔ خان کے سارے عمل بھی چھوٹے ہیں، کوئی اگر بڑا کارنامہ عمران خان نے کیا ہے تو وہ انتخابی میچ فکسنگ ہے۔ جو ان کے نزدیک ایک کارنامہ ہے حالانکہ کام یہ بھی گھٹیا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے دیگر سیاست دانوں کی طرح عمران خان کے اندر کا کھلاڑی بھی پیچھے رہ گیا اور انتخابی چوری، توشہ خانہ چوری غرض چوری چکاری کی عادت کی وجہ سے انہوں نے کھیلوں کے شعبے کو بھی گندی سیاست کی نذر کردیا۔ انھوں نے نوجوانوں سے کھیلوں کے میدان بنانے کے جو وعدےکئے تھے ایک بھی وفا نہ کیا۔کھیلوں کی مجموعی منصوبہ بندی میں کھیلوں کی حیثیت اور اہمیت میں معمولی سی بھی تبدیلی لانے کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ عمران خان کے دور میں نیم سرکاری، سرکاری اور کارپوریٹ سیکٹر میں کھیلوں کے شعبے ضرور بند ہوئے اور اس سے ایک بڑی تعداد میں کھلاڑی بے روزگار ہوئے جو عمران خان کا کھیل کے شعبے کے لئے ایک بڑا تحفہ تھا۔اس بات سے قطع نظر کہ گزشتہ حکومت کے چار سالہ دور میں کئے گئے اقدامات کو تاریخ کس نظر سے دیکھتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ کھیل نوجوانوں کے لئے نیا خون پیدا کرتے ہیں اور کھیل نوجوانوں اور معاشرے میں مقابلے کے رجحان کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی کو بھی شکست دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ عمران خان کے دور میں تعلیمی اداروں کے لئے اگر کوئی کھیل کی پالیسی بن جاتی تو کم از کم اسکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علم بڑے بڑے کھلاڑی بن کرنکل رہے ہوتے مگر عمران خان کے دور میں اسکولوں اور کالجوں میں کھلاڑی بنانے کے بجائے ٹائیگر فورس بنانے پر توجہ دی اور اس ٹائیگر فورس سے پھر 9 مئی کا کام لیا گیا۔ یہ بھی ملک کی بدقسمتی ہے کہ کچھ بڑے انگلش میڈیم اسکولوں میں سال میں ایک بار کھیلوں کا دن منایا جاتا ہے جبکہ سرکاری اسکولوں اور گلی محلوں میں موجود چھوٹے اسکولوں میں تو سرے سے کھیل ہوتے ہی نہیں۔زیادہ تر اسکولوں کے پاس ایک مخصوص کھیل کا میدان ہی نہیں مگر انھیں رجسٹرڈ کرلیا جاتا ہے۔ ایسے اسکولوں کی رجسٹریشن کے وقت، کھیلنے کی جگہ کی عدم موجودگی یا کمی کو نظر اندازنہیں کیا جانا چاہئے۔ خیر اس موضوع پر جلد لکھوں گا لیکن اپنی بات یہ کہہ کر ختم کررہا ہوں کہ اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے شعبے میں ہی صفر کارکردگی کا مالک ہو تو کیا پھر بھی اس کی معیشت یا سیاست میں کارکردگی کوجانچنا چاہئے؟ ایک شخص جو کھیلوں کے شعبے کو بہتر نہ کرسکا اس سے یہ ہی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کو تباہ کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا اور نوجوانوں کو کھیلوں میں ماہر بنانے کے بجائے بدکلامی،گالم گلوچ میں ماہر بنادیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)