سب سے پہلے پاکستان

June 09, 2023

میں حقوق کی تلاش میں نکلی ہوئی غربت زدہ زندگی کو کیا کہوں۔سوال کرتے ہوئے تباہ حال انسانی ڈھانچوں کو کیسے بتاؤں۔ بچوں سمیت خود کشیاں کرتی ہوئی مفلوک الحال ماؤں کوکیسے سمجھاؤ ں کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اک نہ ختم ہونے والی رات ہے۔ جتنے نظریے بھی اس نظام ِ زر کے خلاف آئے ہیں۔تاریخ میں ان کی عمر چند لمحوں کے برابر ہے یہ نظامِ ظلم ہمیشہ سے ہے۔اور شاید آنیوالے انسان کا بھی یہی مقدر ہے سو نظام نہیں بدل سکتا۔ صرف نظام بدلنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ کوشش جاری ہے۔جس کی واضح ترین مثال یہ ہے کل تک پرویز مشرف، آصف علی زرداری، نواز شریف اقتدارکے گھوڑے پر سوارتھے پھر پی ٹی آئی کی حکومت آگئی۔یہ گھوڑا بڑا بے وفا ہے۔ زیادہ دیر کسی کو بھی اپنی پیٹھ پربیٹھنے نہیں دیتا۔یقینا ًکل کسی اور کے ہاتھ باگ پر ہونگے اور پرسوں کسی اور کے پاؤں میں رکاب ہوگی مگردیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ماضی حال اور مستقبل کے سارے سوار ایک ہی قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں۔زر پرستوں کایہ قبیلہ نظام ِ زر کانگہبان ہوتا ہے۔مسلم لیگ نون ہو یا ق،پیپلز پارٹی ہو یا پی ٹی آئی۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تمام صرف سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کیلئے سر گرم ِ عمل ہیں۔ خیر یہ جنگ اپنی جگہ پر مگر یہ طے ہے کہ سب سے پہلے پاکستان، پاکستان ہے توہم ہیں۔ بہت پہلے میں نے پاکستان کیلئے ایک نظم لکھی تھی۔

اتنا یاد رکھو اے اہل سیاست، پہلے پاکستان

اس کے بعد حکومت اور سیادت، پہلے پاکستان

بے شک ٹوٹ کے کرتے ہیں ہم دونوں اک دوجے سے پیار

بعد میں لیکن تیری میری محبت، پہلے پاکستان

بعد میں چاند ستارے آئیں،سورج ورج بھی

پہلے میری خاک ِ پاک کی رفعت ،پہلے پاکستان

بعد میں غنچے، بعد میں نکہت، بعدمیں کلیاں بعد میں پھول

پہلے باغِ وطن ہے،پہلے ریاست، پہلے پاکستان

شہیدوں کے حوالےسے ایک نظم یاد آرہی ہے۔ بہت پرانی۔اس کا عنوان ہے۔”65کی جنگ سے نکلی ہوئی ایک نظم۔“

اس نے اپنے زخمی ہوجانے کی پیچھے ہیڈ کوارٹر کو خبر بھیجی نہیں

مورچے میں خون سے لتھڑا مجاہد جاگتا تھا

اور شہادت کی طلب میں

حوضِ کوثر کے کناروں کی طرف اس کے قدم بڑھنے لگے تھے

لبلبی پر اس کی انگلی کا دباؤ گھٹ رہا تھا

اور دشمن کی طرف سے پیش قدمی ہورہی تھی

سامنے دشمن کا قاتل ٹینک بڑھتا آرہا تھا

اس نے اپنی ساری ہمت مجتمع کی

اور باندھا اپنے سینے پربڑا سا ایک بم

چنگھاڑتے فولاد کے آگے زمیں پر گر گیا

اک دھماکے سے فضا میں ٹینک کے ٹکڑے بکھرتے دیکھ کر

آسمانوں پر کوئی ہلچل ہوئی

آبِ کوثر کے کنارے پر شفق کے سرخ رنگوں کا محل بننے لگا

رسمِ شہادت سرخرو ہونے لگی

اک ہمیشہ رہنے والی زندگی کی گفتگو ہو نے لگی

ہم اس ملک کی سلامتی کیلئے کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اور مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔ایک ترانہ اسی موضوع پرلکھا تھا۔

مرے جلیل وطن کی جمیل دھرتی کی

سلامتیِ کیلئے لازمی بنادی ہے

خدانے جنگ مری زندگی بنادی ہے

دماغ اسلحہ خانہ بنا دیا ہے مرا

عمل اجل کادہانہ بنادیا ہے مرا

تمام جلد مری آہنی بنا دی ہے

خدانے جنگ مری زندگی بنادی ہے

مرے جلیل وطن کی جمیل دھرتی کی

سلامتیِ کیلئے لازمی بنادی ہے

نماز گاہ کے اسرار کھولتی انگلی

یہ پانچ وقت شہادت کی بولتی انگلی

مشین گن کی سی لبلبی بنادی ہے

خدانے جنگ مری زندگی بنادی ہے

مرے جلیل وطن کی جمیل دھرتی کی

سلامتیِ کیلئے لازمی بنادی ہے

یہ نقشِ پا نہیں بارود کی سرنگیں ہیں

یہ است گاہ نہیں بود کی سرنگیں ہیں

بموں کی آگ مری روشنی بنا دی ہے

خدانے جنگ مری زندگی بنادی ہے

مرے جلیل وطن کی جمیل دھرتی کی

سلامتیِ کیلئے لازمی بنادی ہے

کشمیر کے حوالے سے کہی ہوئی ایک نظم یاد آرہی ہے۔

امن و سلامتی کی تمنا لئے ہوئے

کہسار چیرتی ہوئی جہلم کی موج موج

بہتے ہوئے چنار بدن چوم چوم کر

آتش صفت چکوٹھی کے ساحل کے ساتھ ساتھ

لوٹائے وارثوں کو شہیدوں کی میتیں

سنتی ہے داؤ کھن کی گلی ان کی یاد میں

لیپا سے قاضی ناگ کی پُرشور سسکیاں

ہر صبح دیکھتی ہے چناری بچشم ِنم

پانڈو پہ آفتاب کے شعلوں کی سرد شام

رونے کو پُرجہاد جیالوں کی لاش پر

گرتا ہے آسماں سے کہیں چھم کا آبشار

امن و سلامتی کے لئے ہم،بنام صبح

لڑنا تمہیں رات سے، ہے یہ پیام ِصبح

ایک طرف ہم حالت جنگ میں دوسری طرف مسلسل معیشت کی جنگ ہارتے چلے جارہے ہیں۔ مولا ہمارے حال پر کرم کر۔

چارہ سازِ بیکساں امداد کر امداد کر

اے مقدس آسماں امداد کر امداد کر