سالانہ اقتصادی جائزہ رپورٹ

June 10, 2023

گذشتہ برس 9جون کو سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 22-2021کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے جن معاشی اہداف کا تذکرہ کیا تھا، ان میں زرمبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر ، توانائی کے بند منصوبے چالو کرنا ، عام آدمی کی معاشی مشکلات کا ازالہ،ڈنگ ٹپاؤ کی بجائے پائیدار پالیسی کی تشکیل ،غذائی پیداوار میں اضافہ ، مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات اور آئی ایم ایف پر انحصار میں کمی لانے کی راہ ہموار کرنا شامل تھے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو پانچ اعشاریہ 97 فیصد ریکارڈ پر آئی ، زراعت،صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی آئندہ مالی سال کے اہداف میں شامل کی گئی جس کے مطابق زراعت تین اعشاریہ پانچ کے مقابلے میں چار اعشاریہ چار ، صنعت 6اعشاریہ 6 کی بجائے سات اعشاریہ دو جبکہ خدمات چار اعشاریہ دو کے مدمقابل 6اعشاریہ دو اور افراط زر 8 فیصد رہنے کے اندازے لگائے گئے تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کے روز اپنی ٹیم کے ہمراہ رواں مالی سال کا اقتصادی سروے میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے جس میں معاشی اہداف حاصل نہ ہوسکنے کے انتہائی فکر انگیز زمینی حقائق کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ صورتحال اگرچہ نئی نہیں تاہم اس میں غیر متوقع طور پر پیش آنے والے حالات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سرفہرست معمول سے زیادہ مون سون اور تباہ کن سیلاب تھے جن سے لاکھوں ایکڑ رقبےپر کھڑی فصلیں برباد ہوگئیں اور اس کے نتیجے میں صنعتی و تجارتی شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی کی شرح صفراعشاریہ 29 اور مہنگائی 29اعشاریہ 9 فیصد رہی۔ مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4اعشاریہ6فیصد ریکارڈ کیا گیا ۔ فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر کی کم ترین سطح پر اور معیشت سکڑ کر 341 ارب ڈالر پر آگئی۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 69اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا ،درآمدات 29اعشاریہ دو جبکہ برآمدات میں 12اعشاریہ ایک فیصد ، ترسیلات زر میں 13 فیصد اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 23اعشاریہ دو فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس تشویشناک صورتحال کی ایک وجہ عدم سیاسی استحکام بھی بتائی گئی ۔ 2018 میں غیر ملکی قرض 28 ہزار ارب روپے تھا جو اس وقت 59 ہزار ارب روپے سے بڑھ چکا ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق معیشت کی اس گراوٹ کی بڑی وجہ تحریک انصاف کی حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط سے انحراف ہے جس سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔اقتصادی جائزہ رپورٹ میں تشویشناک اعدادوشمار کے علاوہ بعض حوصلہ افزا پہلو بھی سامنے آئے ہیں جن میں ایف بی آر کے محاصل میں 16اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ، ٹیکس دہندگان کی تعداد سات لاکھ سے بڑھ کر 9لاکھ 12 ہزار ، مالیاتی خسارہ چار اعشاریہ 9 فیصد سے کم ہوکر چار اعشاریہ 6 فیصد ، پرائمری بیلنس جو 890 ارب روپے خسارے میں تھا 99 ارب روپے سرپلس رہا ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76 فیصد کمی ہوئی اسی طرح تجارتی خسارہ 40اعشاریہ چار فیصد کمی کے بعد 25اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ اقتصادی سروے قومی معیشت کے بارے میں ایک سالانہ دستاویز ہے جسے حکومت ہرسال وفاقی بجٹ سے ایک روز پہلے پیش کرتی ہے اور اس کی روشنی میں آئندہ مالی سال اور مستقبل کے اہم امکانات کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی سروے سے جو تصویر ابھری ہے اس کی روشنی میں آئندہ بجٹ میں پہلے سے زیادہ سخت اہداف کا تعین تعجب خیز نہیں ۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد اس کی پارلیمنٹ سے منظوری تک حکومت کو مزید سوچ بچار کیلئے کچھ دن مل جاتے ہیں ۔ اس دوران کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے غریب اور عام آدمی کی معاشی مشکلات کو ملحوظ رکھنا اور ان کا ازالہ بہرحال ضروری ہے۔