سنگین بحران، سنہری مواقع، کدھر جانا ہے؟

June 10, 2023

ملکی مجموعی سیاسی،عسکری اور عدالتی قیادت کی توجہ مطلوب ہے۔ ناچیز شہری خبردار کرنے کی جسارت ناگزیر سمجھتا ہے، یہ کہ : اب ہم پاکستانی منیر نیازی والے دائر ےکے سفر میں بھی نہیں رہے۔ دائرہ محفوظ تو رہتا ہے۔ اندر جو بھی ہو، ہوتا جاتا ہے۔ ہمارے 75سالہ سفرکے دائرے کی دیواریں بھی ٹوٹ رہی ہیں، گویا ہم اس (نظام بد) سےبھی نکل گئے جو عشروں سے عوام کو ہضم تو نہیں ہو رہا تھالیکن پیٹ پکڑے سفر تو جاری تھا۔ یا یوں سمجھ لیں کہ ہمارا جیسا تیسا محافظ طرز ِکہن بھی شکست وریخت کا شکار ہے۔ ذرا سا باہر جو نکلے تو گڑھوں کاصحرا ہے، بس ایک محفوظ و ہموار و واضح راہ نظر تو آ رہی ہے اور خوب آ رہی ہے، لیکن ہمارا رخ گڑھوں کی جانب ہے، اس طرف چلتے گرتے پڑتے لڑھکتے کبھی پیر میں موچ آ رہی ہے اور کبھی اوندھے منہ گر کر ہتھیلی ہاتھ پر ضرب لگ رہی ہے۔ سیاست و حکمت پھر بھی ادھر ہی کا رخ کئے ہوئے ہے۔ قومی گھریلو معیشت دونوں گہر ے گڑھے میں گری پڑی ہیں۔ اقتدار کے مزے میں بدمست سرکار نے عطار کے لونڈے کو بلایا تو اس کے بس کا روگ نہیں اور زور دار غصہ دکھاتے وعدوں، دعوئوں کی اکڑ سے کام اور خراب کردیا۔ اب اپنے ہی اوئے اوئے کر رہے ہیں جبکہ انہی (قومی و گھریلو معیشت) کو نکالے بغیر سفر بھی ممکن نہیں۔ذہنی حالت یہ ہے کہ راہرو، انفرادی، گروہی، سیاسی اور طبقاتی تنگ نظر اور جھوٹی تسکین کے گڑھوں پر قدم ڈالتے، ہموار اور راہ کو دیکھتے اس کی طرف ایک قدم بڑھانے کیلئے تیار نہیں۔

پیشگی معذرت کے ساتھ ، بندہ ناچیز ایک اور گستاخی کا مرتکب و مجبور، یہ کہ :(نشانہ ہی طبع نازک پر گراں گزرے تو ایک اور معافی قبول کی جائے کہ بندے میں آپ کی جھڑکی سننے یا ماتھے پہ شکن دیکھنے کا بھی دم نہیں) عرض ہے کہ اس مشکل تر سفر بے منزل میں آپ کی غریب مسکین رعایا شامل نہیں۔ یہ آپ اور آپ کے تابعین کا ہی قافلہ ہے جو ریاست کے عوام بننے کے متمنی آپ کی رعایا کو پیچھے چھوڑ کر دائرے سے گڑھوں کے صحراکی طرف چل نکلا ہے۔ ملکی آئین ٹوٹ چکا۔ بندہ ناچیز جیسے سبھی شہری تو ٹوٹے دائرے میں ہی ٹھہر گئے۔ نہ جانے کس بڑے گستاخ نے انہیں شہری ہونے کے ساتھ نظام بد کا بَیری ہونے کاسبق پڑھا دیا۔شہری آپ کےبَیری نہیں وہ تو آپ کی جانب منزل سے ڈر کر ٹوٹےدائرے میں ہی ٹھٹک گئے۔ غور فرمایا جائے کہ 47 سال کے سفر محال و مشکلات میں بھی ہم آپ کی رعایا کے طور پر تھے تو آپ کے ہم سفر ہی۔ اب جو دائرہ جگہ جگہ سے ٹوٹ گیا آپ بداحتیاطی سے باہر اور ہم غربائے پاکستان اندر۔ مزید غور فرمایا جائے آپ بھی کوئی سفری بحالی سے باہر نہیں ہوئے۔ آپ کے قدم بھی ٹھیک نہیں اُٹھ رہے۔ ہم بھی پھنس گئے لیکن مان لیں کہ آپ کی مجموعی قیادت کے مقابل ہم زیادہ سیانے نکلے۔ ہماری نظر اور عقل دائرے سے نکل کر اس راہ پر ہے جو اب بھی اس پھندے میں جکڑے اکڑے، ہم میں پاکستان کو تابناک بنانے کی امیدجگاتی ہے۔ یہ امید ہماری خواہشوں اور ضرورتوں سے نہیں پھوٹی، قدرت کی تادم جاری مہربانیوں سے مبنی برحقائق فضل و رحمت سے نکلی ہے۔ گویا فضل خداوندی اب بھی اپنی بخشش و رحمت کیلئے تیار۔ بس اتنا ہے کہ ہم (شاید) اپنی اس آخری مہلت میں خود کوسنبھال سکتے ہیں، گڑھوں پھندوں اور اکڑ اور پکڑ جکڑ سے خود کو خود نکال سکتے ہیں، عوام الناس کا جواب ہے ہاں ہاں بالکل۔ یہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمارا پھر امتحان لے رہا ہے۔ عوام تو صبر کے امتحان پر پورے اترے، اب قائدین کرام! آپ کا امتحان ہے لگتا ہے بڑا کڑا امتحان، انائوں اور خود ساختہ مناصب اور رتبوں کے بت توڑنا یقیناً آسان نہیں ہوتا خصوصاً یہ رتبے، یہ عہدے جب آپ ماورا ئےآئین و متفقہ و معتبر مطبوعہ کتاب سے باہر نکل کر اپنی مرضی اور خواہشات سے بنالیں اور اس میں آپ اپنے تصورِحیات کے مطابق آسودگی و آسائشات کے سمندر میں غوطے بھی لگا رہے ہوں،تو یقیناً یہ بت توڑنا کارِ محال ہے۔ لیکن نہیں ایسا بھی نہیں، ہم آپ کی رعایا جو اب بمطابق کتاب آئین ریاستی عوام بننا چاہتی ہے، آپ کو مسلمان اور پاکستانی (چلیں ہماری طرح بھٹکے ہی سہی، جو آپ روز کی بنیاد پر خود ثابت کر رہے ہیں) مانتے جانتے امید کرتے ہیں کہ 25کروڑ کی رہنمائی آپ اور پاکستان کے کام آ سکتی ہے۔ پہلی یہ کہ خدارا! آئین شکنی ترک کردیں جو ہوگئی، اس پر کوئی سیاست نہیں۔ اس حمام میں سب . . . . . . .

پاکستانی عوام ٹوٹے دائرے میں آئین کو حصار میں لئے کھڑے ہیں، سردست تو وہی آئین کے محافظ ہیں کہ ریاستی ادارے اپنی یہ سکت اور فرض کھو چکے۔ عوام اپنی موجود حالت زار میں بھی اس لئے اہل ہیں کہ آئین ان کے مین ڈیٹڈ اکابرین نے اپنے اتحاد و اتفاق سے بنایا تھا۔ سو وہ (آئین) آج بھی اپنے مندرجات میں عوام کے حقوق و تحفظ و فلاح کا یقینی ضامن ہے۔ اس کا کامل اطلاق ہوگیا تو انتخاب بھی شفاف و بااعتبار ہوگا۔ حکومت مستحکم اور اپوزیشن محترم و معتبر اور احتساب و چیک کی علمبردار۔ قاضی آئین و قانون کا پابند اور اتنا ہی محترم، محافظ اور ملک کی طویل ترین حساس سرحدوں، پانیوں اور آزاد فضائوں کی محافظ عسکری قیادت، اتنی ہی معتبر و عزت دار جتنا اہم اور احساس اس کا فریضہ۔ آئو آئین کی طرف آئو، مفاہمت کی طرف اور سب کو، سب کی معافی کی طرف آئو۔ 25کروڑ پاکستانی ہم پاکستان کیلئے جڑ جائیں۔

اور یہ جو قومی راہ ہوتےبھی نظر نہیں آرہی جس میں پاکستان تاجکستان کی بجلی کا، ترکمانستان کی گیس کا اور ایران کے تیل کیلئے راہ داری کی سہولتوں کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا انرجی کاریڈور بننے کے تمام تر امکانات اور ضرورتیں مکمل واضح۔ سینٹرل ایشیا کے ذخائر آشکار کرنے کیلئے بھارت اورسینٹرل ایشیاتو فارایسٹ کے روٹس کو تجارتی راہ داریاں دینےکیلئے چین، امریکہ، یورپ، روس، جاپان کو سرمایہ کاری سے لے کر بنگلہ دیش اور نیپال تک بذریعہ بھارت اور ترکی، بذریعہ ایران وافغانستان ہم جیو اکنامک اسٹیٹس کو جتنا چاہیں کیش کرالیں۔ لیکن اس کیلئے ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ بس بحیثیت قوم فیصلہ کرنا ہے کہ سنگین بحران میں پھنسے رہنا ہے یا مواقع حاصل کرکے تابناک پاکستان کا سفر شروع کرنا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے اب تو سب کچھ واضح، کچھ بھی تو چھپا نہیں، پاکستان کے ہر ادارے اور شہری کو مکمل معلوم ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست اور جو کچھ ہو رہا ہے کون کر رہا اور کیوں کر رہا ہے؟ آئو بھائیو! آئو قائدین کرام! اپنا سفر آئین شکنی کے خاتمے اور آئین کےمکمل اطلاق سے شروع کریں۔ وما علینا الالبلاغ۔