منہ کے امراض عالمی سطح پر سب سے عام امراض میں شامل ہیں۔اِن امراض میں مسوڑھوں کی سوزش، دانتوں کا گرنا، ہونٹوں اور منہ کا سرطان وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ منہ کے زخموں کی عام وجہ وائرسز ہیں،تاہم بیکٹیریا بھی ایسے زخموں کا سبب بن سکتے ہیں۔ جیسے اکثر سردی کے زخم پس یا سمپلیکس وائرس کے سبب اور بعض زخم اسٹریپٹوکوکس اور ایکٹینومائسسز بیکٹریا کے سبب بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر علامات کی بات کریں، تو ان میں بخار، گلے کی سوزش، زبان، مسوڑھوں اور گالوں کے اندر تکلیف دہ چھالے، ہتھیلیوں، تلووں اور بعض اوقات کولھوں پر دھبّے (جن میں خارش تو نہیں ہوتی، لیکن بعض اوقات چھالے ضرور پڑ جاتے ہیں) اور بھوک میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔
دانتوں کی بیماری کے ابتدائی مرحلے کو’’مسوڑھوں کی سوزش‘‘ کہا جاتا ہے کہ اس میں مسوڑھے سُوج کر سُرخ ہوجاتے ہیں اور اُن سے خون بہہ سکتا ہے۔ صورتِ حال زیادہ سنگین ہوجائے، تو اُسے’’پیریڈونٹائٹس‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اِس مرض میں مسوڑھوں کی ہڈی ختم ہو سکتی ہے اور دانت ڈھیلے پڑ سکتے ہیں یا گر بھی سکتے ہیں۔ صحت مند منہ میں دانتوں کے ارد گرد کی پاکٹس (جیبیں) عام طور پر1 سے3 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہیں، جب کہ گہری پاکٹس پیریڈونٹل بیماری کی علامت ہوسکتی ہیں۔اگر دانت کے ارد گرد سُوجن یا پیپ نظر آئے یا بخار ہو، تو یہ اِس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ آپ کو کوئی زیادہ سنگین مسئلہ درپیش ہے۔
ایسی صُورت میں کسی اچھے ڈینٹیسٹ( دندان ساز) سے رجوع کریں کہ اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ دیگر علاج کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔یاد رکھیں، آپ کے دانت لانڈری کی طرح ہیں، خوراک، ادویہ، تمباکو سے ان کا رنگ خراب ہوسکتا ہے۔دانتوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، کیوں کہ ایسی صُورت میں چپچپا بیکٹیریا، جسے’’ پلاک ‘‘کہتے ہیں، دانتوں پر جمنے کی صُورت میں آہستہ آہستہ اُن کے سخت بیرونی خول (انامیل) کو تباہ کر دیتا ہے۔ دانتوں کو ہر قسم کے مسائل سے بچانے کے لیے دن میں کم از کم دو بار فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ سے دانت برش کریں، نمکین اشیاء کا استعمال محدود کر دیں، روزانہ فلاسنگ، فلورائیڈ مائوتھ واش سے غرارے کریں۔
دانتوں کے ابتدائی علاج کے لیے گھر پر نمکین پانی سے غرارے کرنے چاہئیں۔اسی طرح ہائیڈروجن پرو آکسائیڈ سے غرارے کرنا بھی مفید ثابت ہوتا ہے اور اس سے درد یا سوزش دُور کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ پیپرمنٹ ٹی بیگ، لہسن، ونیلا ایکسٹریکٹ اور امرود کے پتّے بھی کسی دندان ساز کے پاس جانے سے قبل درد سے ریلیف دے سکتے ہیں۔ پینسلین فیملی کی ادویہ دانتوں کے انفیکشن کے لیے اینٹی بائیوٹکس کی عام شکل ہیں۔ یہ زیادہ ضدّی بیکٹیریا ختم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
تاہم ایک مستند ڈینٹیسٹ ہی بتا سکتا ہے کہ دانتوں میں موجود بیکٹیریا کے لیے کون سی اینٹی بائیوٹک فائدہ مند ثابت ہوگی۔دانتوں کی جڑ میں انفیکشن اُس وقت ہوتا ہے، جب بیکٹیریا دانتوں کے گُودے پر حملہ کرتے ہیں اور یہ گُودا دانت کا سب سے اندرونی حصّہ ہے، جس میں خون کی نالیاں، اعصاب اور جوڑ والی بافتیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ بیکٹیریا عموماً مسوڑے کے ذریعے اندر داخل ہوتے ہیں یا دانت میں پڑنے والے شگاف کے ذریعے جڑ تک پھیل جاتے ہیں۔ایک ماہر دندان ساز( ڈینٹیسٹ یا ڈینٹل سرجن) ہی دانتوں، مسوڑھوں اور منہ کے متعلقہ حصّوں کے مسائل کی تشخیص و علاج کرسکتا ہے۔
وہ دانتوں، مسوڑھوں کی دیکھ بھال اور منہ کی صحت متاثر کرنے والی غذا کے اجتناب سے متعلق بھی ہدایات دیتا ہے۔ نیز، کچھ ایسے دیگر مسائل کے لیے بھی، جن کا تعلق ہمارے دانتوں کی صحت ہی سے ہے، لیکن ہم نے اُن پر شاید ہی کبھی غور کیا ہو، جیسے دانت پیسنے سے نیند نہ آنا یا سر میں درد وغیرہ سے نمٹنے کے لیے بھی دانتوں کے ڈاکٹر ہی سے باقاعدہ معائنہ کروانا ضروری ہے۔
جب ہم’’ منہ کی صحت‘‘ کی بات کرتے ہیں، تو اس میں دانتوں، مسوڑھوں، پورے منہ اور چہرے کے نظام کی صحت شامل ہے، جو ہمیں مُسکرانے، بولنے اور چبانے کی اجازت دیتی ہے۔ منہ کی صحت کے ابتدائی مسائل میں دانتوں کی خرابی، مسوڑھوں کی بیماری، منہ کا السر، ہیلیٹوسس، بچپن میں دانت نکلنا اور منہ کی کُھجلی وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ابتدائی مرحلے ہی میں مسوڑھوں کی بیماری، انفیکشن یا دیگر مسائل کا علم ہو جائے، تو ڈاکٹر عمومی علاج کی طرف جاتے ہیں، جیسے دانتوں کی صفائی، فلورائیڈ سے علاج، اینٹی بائیوٹکس کا استعمال، فِلنگ، کراؤن، سیلنٹ، پروبائیوٹکس اور عادات کی تبدیلی وغیرہ۔ایک اور مسئلہ عقل داڑھ کا نکلنا بھی ہے۔
اکثر پوچھا جاتا ہے کہ یہ داڑھ کس عُمر میں نکلتی ہے؟ تو واضح رہے کہ عقل داڑھ، جسے’’ تھرڈ داڑھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، منہ میں بننے والے آخری مستقل دانت ہیں، جو عام طور پر نوعُمری میں پُھوٹ پڑتے ہیں یا جبڑے کی ہڈی کے اندر غیر معیّنہ مدّت تک رہتے ہیں۔ زیادہ تر دانتوں کے ڈاکٹر انھیں زندگی کے شروع ہی میں ہٹانے کی تجویز دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے مختلف انفیکشنز، دانتوں کی کیریز، سسٹ اور ٹیومرز وغیرہ کا خدشہ رہتا ہے۔ عقل داڑھ عام طور پر16سے25سال کی عُمر کے درمیان نکلتی ہیں، جب کہ کئی لوگوں میں عقل داڑھ جبڑے کی ہڈی کے اندر غیر فعال رہتی ہیں۔
بعض لوگوں میں عقل داڑھ30 سال کے بعد نکلتی ہیں، تاہم ماہرِ امراضِ دندان، مریض کو تکلیف سے بچانے کے لیے اُنہیں وقت سے پہلے نکال دیتے ہیں۔ یہ کیسے پتا چلے کہ عقل داڑھ آ رہی ہے؟تو اِس عمل کے دَوران زیادہ تر لوگ اپنے منہ کے پچھلے حصّے میں تکلیف محسوس کرنے لگتے ہیں اور چِھدے مسوڑھوں کے ٹشوز کے گرد سوجن یا سوزش ہوسکتی ہے۔ ایسی صُورت میں عام طور پر گرم نمکین پانی کی کُلیّوں اور درد کی کاؤنٹر ادویہ کی سفارش کی جاتی ہے۔ عقل داڑھ آنے کی کچھ دوسری علامات بھی ہیں، جن میں جبڑے کا درد، گردن کی نرمی، منہ کھولنے میں دشواری (ٹرسمس)، سانس کی بدبو، منہ کا ذائقہ خراب ہونا اور مسوڑھوں کے ٹشوز سے خون بہنا وغیرہ شامل ہیں۔ (مضمون نگار، سابق صدر،’’ ینگ ڈینٹل سرجن‘‘ اور ممبر ایگزیکٹیو کمیٹی پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن ہیں، جب کہ فاروقِ اعظمؓ میڈیکل سینٹر،نارتھ ناظم آباد، کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔)