خارجہ امور میں پاکستان اس حد تک مشکلات کا شکار ہو چکا ہے کہ اگر کسی ملک کا سفیر کسی شہر کا دورہ کرلے تو بھی دنیا اس کو اس نظر تک سے دیکھنے لگتی ہے کہ کہیں پاکستان کسی پالیسی کی تبدیلی کی جانب تو گامزن نہیں ہو گیا ہے اور ایسا صرف اس لئے ہے کہ ہم دانستہ طور پر کئے گئے اقدامات کے نتیجےمیں اپنی معیشت کو کمزور کر بیٹھے ہیں اور کمزور معیشت ہو تو پھر سوالات زیادہ تیزی سے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ ان تمہیدی كلمات کا شان نزول یہ ہے کہ میرے ایک غیر ملکی دوست نے امریکی سفیر کے دورہ گوادر پر مجھ سے استفسار کیا کہ کیا اس دورے کے محرکات کو صرف علامتی حیثیت سمجھنا چاہئے یا اس سے کسی پالیسی شفٹ کے امکانات پیدا ہوتے محسوس ہو رہے ہیں؟ میں نے جوابی استفسار کیا کہ آپ کو امریکی سفیر کے دورہ گوادر سے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ پالیسی شفٹ جیسا بڑا خیال آپ کے دل میں آ گیا؟ جواب تھا کہ امریکی سفیر اپنے ساتھ اپنے دو فوجی اتاشی بھی لیکر گئے تھے اور اس نوعیت کے دورے میں فوجی افسران کا ہمراہ ہونا اس امر کا غماض تھا کہ اس کے مقاصد صرف علامتی نہیں تھے بلکہ تناظر بڑا تھا ۔
حالاں کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے حوالے سے دنیا اور خاص طور پر امریکہ کا تناظر ہمیشہ بڑا ہی ہوتا ہے مگر ہمیں اس تناظر کو ہمیشہ منفی نظر سے ہی نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس کے مثبت اثرات مرتب کرنے کیلئے کوشاں ہونا چاہئے کیوں کہ اگر ہم یکسو ہو کر کوشش کریں تو کسی بھی اقدام کے منفی اثرات کوزائل کرنے اور مثبت اثرات کو وسیع کرنے کی پاکستان بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ خبر ہے کہ پاکستان نے بلوچستان کی حساسیت اور اس سے جڑے معاشی معاملات کو بھارتی سازشوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر ایف سی کو مزید فعال کرنے کی غرض سے ایف سی میں اعلیٰ سطح کے مزید فوجی افسران کا تقرر کر دیا ہے تا کہ کسی بھی نوعیت کی بد امنی سے نمٹنے کیلئے اس ادارے کی استعداد کار کو بہتر کیا جا سکے ۔ یہ سب کچھ افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور لا محالہ اس میں امریکی دلچسپی بھی پیدا ہوگی کہ پاکستان وہاں پر کس قسم کی حکمت عملی اختیار کرنے کی روش پر گامزن ہے اور اسی چیز کو سمجھنے کیلئے امریکی سفیر کے ہمراہ ان کے فوجی افسران بھی تھے کیوں کہ ان کی ملاقاتوں میں وہاں متعين اعلیٰ سطح کےعہدیدار شامل تھے اور اس نوعیت کے تبادلہ خیالات کوسفارتی دنیا میںمعمول کی کارروائی شمار کیا جاتا ہے پھر پاکستان ایران کی سرحد پر ہونے والی اسمگلنگ کو نکیل ڈالنے کیلئے پاکستان بہت سنجیدگی سے اقدامات اٹھا رہا ہے، پاکستان نے ایران سے تجارت کو فروغ دینے کی غرض سے معاہدہ بھی کیا ہے جس میں چھبیس اشیا ایران پاکستان سے جبکہ گیارہ اشیا پاکستان ایران سے لے سکتا ہے ۔ یہ پاکستان ایران تعلقات میں ایک بڑی پیش رفت ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے اس میں امریکی دل چسپی کوئی سر بستہ راز نہیں ہے ۔ جو بیان کیا جا رہا ہے اس کے مطابق امریکی سفیر نے پاکستان اور خاص طور پر گوادر میں امریکی کاروباری کمپنیوں کی خاص طور پر کاروباری دل چسپی پر گفتگو کی بلکہ انہوں نے یہ تک کہا کہ پینتیس امریکی كکمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں اور ان کے دورہ بلوچستان و گوادر کا مطلب چین کے خلاف کوئی مہم جوئی نہیںہے ۔ ہمیں اس پر یقین کرنا چاہئے اور حالات بھی ایسے رکھنے چاہئیں کہ کوئی بھی کسی بھی ملک کے خلاف پاکستان سے مہم جوئی نہ کر سکے ۔ دنیا میں مختلف ممالک سے پاکستان کے مفادات مختلف انداز میں وابستہ ہیں اور کسی بھی طرف سے بگاڑ ہمارے مفاد میں نہیں ۔ ریکوڈک کا منصوبہ بھی امریکی دل چسپی کا حامل ہے ۔ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس پر کام کرنا چاہتا ہے ۔ سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور امریکہ کی اس شعبے میں مہارت کا اشتراک چاہتا ہے ۔ ریکوڈک کے ساتھ ہی کوئی تجارتی مقاصد کیلئے فضائی نقل و حرکت کی بھی سہولتیں موجود ہیںجو ایک بہت اہم بات ہے ۔ یہ سب اپنے غیر ملکی دوست کو بیان کر کے میں ٹھہر گیا اور اس کو کہا کہ ایک بات دنیا اپنے ذہن میں بٹھا لےکہ پاکستان دنیا کے کسی بھی ملک کو کسی بھی قسم کی سہولتیں جن میں اس بات کا شائبہ بھی موجود ہو کہ اس سے فوجی نوعیت کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہے ہرگز نہیں دیگا ۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین سطح کی سیاسی قیادت اور فوجی افسران ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی سہولت جب کسی بھی ملک کو فراہم کی گئی تو اس سے پاکستان کو نقصان ہی پہنچا اس لئے ایسی کوئی درخواست اگر کسی طرف سے کی بھی گئی تو اس کو بغیر کسی دباؤ کو خاطر میں لاتے ہوئے رد کر دیا جائے گا اور دفاعی حکام ہر قدم کو وہ چاہے کسی بھی طرف سے یا کسی بھی سطح پر کیا جا رہا ہے اس کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں پاکستان تو اب دہشت گردی کی روک تھام تک کیلئے کسی براہ راست مداخلت نما مدد جیسے ماضی میں ڈرون حملوں کی مانند تک وصول کرنےکیلئے تیار نہیں ہے ۔ اور یہی درست راستہ ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)