کم وبیش دو دہائیوں سے ملک گیر سطح پر سرکاری محکموں میں گھوسٹ ملازمین کی بارہا نشاندہی ہوچکی ہے اور حال ہی میں نگران وزیربلدیات سندھ نے کراچی کے سات اضلاع میں گیارہ سو کے قریب ایسے ہی افراد کی موجودگی کا اظہار کیا ہے جو گھر بیٹھےاس محکمے سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان میںبیشتر افراد دو ملازمتیں کرتے ہیں۔ آج نادرا کے توسط سے کسی بھی مشکوک شخص کا پتا لگانا ناممکن نہیں رہا لیکن ایسا نہ ہونے سے گھوسٹ ملازمین اور پنشنرز ریلوے اور تعلیم سمیت وفاقی اورصوبائی حکومتوں سےاربوں روپے سالانہ کے غیرقانونی واجبات وصول کر رہے ہیں۔آمدہ رپورٹ کے مطابق نگران حکومت سندھ نے ملازمین کی حاضری یقینی بنانے کیلئے صوبے میں بائیومیٹرک سسٹم لانے کا اعلان کیا ہے ، یہ ایک کامیاب ٹرانسپیرنٹ نظام ہے اور نجی شعبے میں کامیابی سے چل رہا ہے اور بعض سرکاری محکمے بھی اس پر کاربند ہیں، تاہم ملک بھر میں گھوسٹ اسکول اور ملازمین سب سے زیادہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے محروم دور دراز علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ کئی برس سے ان مقامات پر قائم اسکولوں میں با اثر لوگوں کے مال مویشی باندھے جانے کی اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں، نیب سمیت بعض دوسرے تحقیقاتی اداروں کو بھیجی گئی رپورٹوں میں بوگس پنشنروں کی موجودگی کے انکشاف پر کارروائی کا آغاز بھی ہوا تھا تاہم اس کے آگے بڑھنے یا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی تاحال کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ سرکاری اداروں اور محکموں میںگھوسٹ سے لیکر بدعنوان ملازمین کی موجودگی قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔نگران حکومت نے جسطرح ڈالر اور اسمگلنگ کے خلاف کامیاب قدم اٹھایا ہے ضروری ہوگا کہ اس دائرہ کار میں گھوسٹ ملازمین بھی شامل کئےجائیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998