• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہجرتوں کا موسم ہے، لوگ پاکستان سے زندہ بھاگ رہے ہیں، بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں، دودھ اور شہد کی نہریں تو پہلے بھی نہیں بہتی تھیں، تارکین وطن کی تعداد میں سال ہا سال سے بہ تدریج اضافہ تو ہو رہا تھا لیکن جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔نئے پاسپورٹ بنوانے والوں اور ہجرت کرنے والوں کی نسبت سے اعداد و شمار نظر میں نہ بھی ہوں توآپ ان احوال کی تصدیق کر سکتے ہیں، اب یہ منظر آپ کے گردوپیش میں رقصاں ہے، اپنے خاندان میں، اپنے محلے میں۔ جو جا سکتا ہے، جا رہا ہے۔ ابھی ایک اُوبر ڈرائیور سے ملاقات ہوئی، بتانے لگا کہ فیشن ڈیزائن میں گریجوئیٹ ہے، تین بچے ہیں، بارہ گھنٹے ٹیکسی چلاتا ہے، مگر گزارا نہیں ہو رہا۔پھر اس کے لہجے میں چمک آئی اور کہنے لگا کینیڈین ویزا کے لیے سچی جھوٹی بینک اسٹیٹمنٹ پر کام کر رہا ہوں اور ایک ماہ تک ان شااللّٰہ، ان شااللّٰہ، ان شااللّٰہ یہاں سے ’نکل‘ جائوں گا (ان صاحب نے ’ان شااللّٰہ‘ تین بار ہی کہا تھا)۔ یہ لوگ کیوں اپنے ملک سے جا رہے ہیں، کیوں جانا چاہ رہے ہیں، اس کا جواب جاننے کے لئےکسی کمیٹی کی تشکیل درکار نہیں ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں افراطِ زر کی شرح برِ اعظم ایشیا کے ہر ملک سے زیادہ ہے، اور اگلے سال کا تخمینہ اس سے بھی تاریک تر ہے۔

اب ذرا ایک دلچسپ منظر دیکھئے۔ اتنے بہت سے لوگوں کا پاکستان چھوڑ جانا ہمارے لیے اتنی بڑی خبر نہیں بن سکا جتنی بڑی خبر ایک آدمی کی پاکستان واپسی بنی ہوئی ہے جس کا نام ہے میاں محمد نواز شریف۔ ویسے اس وقت نواز شریف کے سیاسی بیانیے کا مرکزی نقطہ وہی افراطِ زر ہے جس نے بابِ ہجرت کے کواڑ وا کر رکھے ہیں۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ میری اچھی بھلی، جمی جمائی حکومت کو ایک منظم سازش کے ذریعے ہٹا کر پاکستان کو اُس گھاٹی کی طرف ہانکا گیا جس میں آج یہ ملک اُتر چکا ہے۔ یہ افراطِ زر یہ ہجرتیں سب اسی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ویسے کیا خیال ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ میاں صاحب کی ’آمد‘ بارے گفتگو اُن کی ’رفت‘ سے آغاز کی جائے؟

اب اس بارے کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ 2013 میں نواز شریف کی حکومت آتے ہی اُس کی جڑیں کاٹنے کے لئے درانتیاں تیز کر لی گئیں تھیں، اور چھ ماہ بعد تو دھرنے کی باقاعدہ تیاری آغاز فرما دی گئی تھی۔ معلوم اداروں اور معلوم افراد نے ہاتھ تھام کر نواز شریف کو ایک بے سروپا کیس میں اقامے پر سزا دی اور اقتدار سے نکال دیا۔ پھراسی ’محبِ وطن‘ ٹولے نے نواز شریف کو جج ارشد ملک کے ہاتھوں ’مجرم‘ قرار دلوایا۔یہ سازش پکڑی جا چکی ہے، وہ کردار برہنہ ہو چکے ہیں۔ اب اس میں کیا شبہ رہا ہے کہ 2018 کا الیکشن گن پوائنٹ پر لُوٹا گیا تھا، جس کے بعد قیدی نمبر 804 کو قمر باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ اپنے کندھوں پر بٹھا کر وزیرِ اعظم ہائوس چھوڑ کر آئے تھے۔ یہ ہے ’مجرم‘ اور ’مفرور‘ نواز شریف کی کہانی۔

نواز شریف کی واپسی بارے کامن سینس کہتی تھی کہ وہ ساس گزیدہ عدلیہ کے ہوتے واپس نہیں آئیں گے، اور الیکشن سے بس اتنا پہلے آئیں گے کہ ان کی آمد کا مومینٹم انتخاب تک نہ ٹوٹے۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، اِدھر میاں صاحب نے 21 اکتوبر کی واپسی کا اعلان کیا اور اُدھر الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخر میں انتخاب کا عندیہ دے دیا (اس ترتیب میں بھی نشانیاں ہیں)۔ سیاسی منظر نامے کے بارے عمومی تجزیہ یہی تھا کہ میاں صاحب کے تعلقات اربابِ بست و کشاد سے ہموار ہیں، عمران خان جیل میں ہیں، ان کی پارٹی ادھ موئی ہو چکی ہے، لہٰذا میاں صاحب سے بنا کر رکھنا اسٹیبلشمنٹ کی اپنی مجبوری بھی ہے، کیوں کہ ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ایک ہی وقت میں دونوں بڑی پارٹیوں سے تعلقات سرد نہیں ہونے دیے۔ اس صورتِ احوال میں آنے والے انتخابات کے ہیولیٰ کی تجسیم ہو چلی تھی، میاں صاحب کی سیاسی نائو کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ یکایک نواز شریف کے ایک بیان نے پانیوں میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے، فرماتے ہیں کہ سازشی کرداروں کا احتساب لازم ہے ورنہ پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے اور کروڑوں پاکستانیوں کو معاشی عذاب میں مبتلا کرنے والے ججوں اور جرنیلوں کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے، میاں صاحب فرماتے ہیں کہ اب ’مٹی پائو‘ کا رویہ نہیں چلے گا۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب بیانیے کی تلاش میں انتہائی پُرخار راستے پر جا نکلے ہیں، اُن کی پارٹی میں بھی اس بیانیے بارے پریشانی نظر آ رہی ہے، خوف نظر آ رہا ہے کہ کہیں بنا بنایا کھیل نہ بگڑ جائے۔ بہرحال، کھیل بنتا ہے یا بگڑتا ہے، میاں صاحب اسی بیانیے کے ساتھ الیکشن میں جاتے ہیں یا اپنے محدود مقاصد حاصل کر کے ایک قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں، یہ سب تو جلد کُھل جائے گا، مگرنواز شریف جو کہہ رہے ہیں اس کی حقانیت بارے آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ جو اس آج ملک میں چار سُو دُھول اُڑ رہی ہے کیا یہ ہماری 75 سالہ’ مِٹی پائو‘ پالیسی کا انجام نہیں ہے؟ ایوب خان نے آئین توڑا، ہم نے کہا ’مٹی پائو‘، یحییٰ خان نے ملک توڑا، ہم نے کہا ’مٹی پائو‘، ضیاالحق اور مشرف نے ریاست کی اساس کو پامال کیا ، ہم نے کہا ’مٹی پائو‘، ہم نے جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کے ساتھ بھی ’مٹی پائو‘ رویہ اپنایا۔اب ایک مرتبہ پھر آئین کی مٹی پلید کرنے والے مجرم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، کیا مصلحت ہم کمزوروں کو ایک بار پھر قائل کر رہی ہے کہ ’مٹی پائو‘؟ کیا عملیت پسندی کا تقاضہ ’مٹی پائو‘ ہے، یا اس پالیسی کو ترک کرنا ہے جس نے اس ریاست کو مٹی میں ملا دیا ہے؟ یہ ہمارے لئے فیصلے کی گھڑی ہے، اس سے پہلے کہ تاریخ کا فلک شگاف قہقہہ فضا میں گونجنے لگے۔

تازہ ترین