مذاکرات یا میڈیا کی جنگ؟

February 12, 2014

بظاہر طالبان کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں۔ وہ پورے پاکستان پر اپنی طرز کی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کچھ حلقوں میں پائی جانے والی خوش فہمیوں کو یہ کہہ کر مسمار کر چکے ہیں کہ اگر پاکستان کے آئین کو ہی تسلیم کرنا ہوتا تو وہ جنگ ہی کیوں لڑ رہے ہوتے لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر ابہام ہے تو وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے رفقائے کار کے ذہنوں میں جو سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے طالبان کو رام کیا جا سکتا ہے۔اس وقت اصل جنگ پاکستان کے عوام کی ہمدردیاں جیتنے کی ہے۔ حکومت اور طالبان اپنی اپنی کمیٹیوں کے ذریعے میڈیا کی جنگ جیتنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔1977ء کی بھٹو مخالف قومی اتحاد کی تحریک بھی اپنے مقاصد میں بڑی واضح تھی کہ الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں ذوالفقار علی بھٹو کا خاتمہ ضروری ہے۔ اپنے دور میں بھٹو مرحوم مذہبی جماعتوں کے بہت سے مطالبات تسلیم کر چکے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے ایسے اقدامات کی بنا پر مذہبی جماعتیں ان کے خلاف کوئی کامیاب تحریک نہیں چلا سکتیں۔ ہوا یہ کہ بھٹو صاحب نے مذہبی جماعتوں کے سامنے جھک کر ان کو معقول سیاسی طاقت کے رتبے تک پہنچا دیا اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اب وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی یہی غلطی کر رہے ہیں ۔ان کا بھی خیال ہے کہ اگر طالبان صلح جوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تو وہ عوام میں بدنام ہو جائیں گے اور پھر حکومت کے پاس ملٹری آپریشن کا بہتر جواز ہو گا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم کو ریاست کے مساوی ہونے کا رتبہ دے دیا گیا ہے۔ اس غلطی کے نتائج بھی بہت زیادہ بھیانک ہو سکتے ہیں۔
امن مذاکرات کے پس منظر کو دیکھیں تو طالبان نے غیر مشروط مذاکرات کا عندیہ تب دیا جب پاکستانی عوام میں ملٹری آپریشن کے حق میں اتفاق رائے پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔چند ہفتے پیشتر جس طرح طالبان نے فوجیوں اور معصوم شہریوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا تھااس سے یہ صورت حال پیدا ہو چکی تھی کہ مسلم لیگ (ن) جیسی قدامت پرست یا معتدل پارلیمانی پارٹی کے اندر بھی ملٹری آپریشن کے حق میں اتفاق رائے نظر آرہا تھا۔ اس طرح کا اتفاق رائے بہت مدت کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پہلے سے ملٹری آپریشن کے حق میں تھیں۔ مذہبی پارٹیوں کے علاوہ صرف تحریک انصاف امن مذاکرات کا راگ الاپ رہی تھی۔ ملٹری آپریشن کرنے والے اسے نظر انداز کر سکتے تھے لیکن ان کے پیش نظر دوسرے عملی مسائل تھے جن کی بنا پر وزیر اعظم نواز شریف نے پرامن مذاکرات کو ایک آخری موقع دینے کا اعلان کر دیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے پیش نظر تحریک انصاف کے اعتراضات سے بچنا تو تھا ہی کیونکہ بہت سے علاقوں میں وہی اس کی اصل حریف ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں یہ رائے عام ہے کہ پیپلز پارٹی کے سندھ کے علاوہ باقی علاقوں سے معدوم ہونے کے بعد اس کا اصل مقابلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کو طالبان کے معاملے میں سیاسی برتری حاصل کرنے سے روکنا اس کا بنیادی مقصد تھا۔ فوجی آپریشن کو ملتوی کرنے کی دوسری وجہ شدید سردی کا موسم ہے۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کی بہت سی آبادی بے گھر ہونے والی تھی جس کے لئے اتنی شدید سردی میں بندوبست کرنا بہت مشکل تھا۔ فوجی آپریشن مارچ یا اپریل میں ہو سکتا تھا لہٰذا حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس وقت مذاکرات کو ایک موقع دیا جائے۔
طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد برملا کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات ہوں یا جنگ ن کا مقصد ملک میں شریعت کا نظام قائم کرنا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی حکومت یہ واضح کر چکی ہے کہ مذاکرات پاکستان کے1973ء کے آئین کے احاطہ کار میں ہوں گے۔ ظاہر بات ہے کہ طالبان اس آئین اور اس کے اطلاق کو شرعیہ کا نفاذ تسلیم نہیں کرتے ۔طالبان کے نظام شریعت سے مراد اس طرح کا نظام ہے جو انہوں نے افغانستان میں نافذ کیا تھا۔ پاکستان کی حکومت اس طرح کا نظام نافذ کر ہی نہیں سکتی، لہٰذا امن مذاکرات کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ اب بھی پاکستان میں امن مذاکرات کے بہت سے حامی اس خوش فہمی میں ہیں کہ طالبان عام معافی کے تحت اپنی مسلح جدوجہد ترک کر دیں گے اور ہتھیار پھینک کر جمہوری نظام میں مدغم ہوتے ہوئے ووٹوں کے ذریعے شرعی نظام نافذ کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا کیونکہ طالبان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا جمہوری نظام کافرانہ ہے جس کو وہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ان کی طرز کی شریعت جمہوری نظام کے ذریعے نافذ ہو سکتی تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام یہ کارنامہ سر انجام دے چکی ہوتیں۔ پاکستان کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام طالبان کے افغانستان طرز کی شریعت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان جمہوریت کو تج کر محدود شوریٰ کے نظام پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔ ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ قائم کی تھی اور سب جانتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوئی۔ بنیادی طور پر پاکستان کے عوام جمہوریت پسند ہیں اور ان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ مذہبی و غیر مذہبی غیر جمہوری طاقتوں کو رد کر دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے ہر بار فوجی حکومتوں کے خلاف بھی بغاوت کی اور مذہبی پارٹیوں کو بھی حاکمیت کا حق نہیں دیا۔ علاوہ ازیں پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے۔ پاکستان کی معیشت عالمی نظام کا حصہ ہے جس میں مروجہ عالمی بینکاری نظام سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے لینے پر مجبور ہے۔ اگرطالبان کے شرعی نظام کے تحت مروجہ بینکاری نظام کو رد کردیا جائے تو یہ قرضے نہیں ملیں گے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح معاشرتی سطح پر پاکستانی معاشرہ طالبان کے شرعی نظام کے مطابق نہیں ڈھل سکتا مثلاً پاکستانی معاشرے میں عورت کا ایک مقام ہے، وہ زندگی کے اکثر شعبوں میں مرد کے شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ اس پر طالبانی طرز کا پردے کا نظام کیسے لاگو کیا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ کسی بھی شعبے کو لے لیں افغانستان کے قبائلی طالبان ماڈل کو پاکستان میں قبولیت حاصل نہیں ہو سکتی۔سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میں طالبان کا شرعی نظام نافذ نہیں ہو سکتا تو پھر مذاکرات کس مقصد کے لئے ہو رہے ہیں؟ ہمارے خیال میں یہ ساری تگ و دو پاکستانی عوام کی رائے کو ہموار کرنے کی ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کے بارے میں ویسی ہی کنفیوژن قائم رہے جو چندماہ پیشتر تک موجود تھی جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ ملٹری اپریشن کے لئے زیادہ سے زیادہ عوام اس کا ساتھ دیں۔ دراصل امن مذاکرات میڈیا کی جنگ ہے جو کچھ دیر جاری رہے گی لیکن آخر میں فیصلہ میدان جنگ میں ہی گا۔