سنجیدہ سیاست کا فقدان

April 25, 2024

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
مملکت پاکستان کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ریاست کئی برسوں سے بلندیوں سے گراوٹ کی طرف چل رہی ہے اور قومی قیادت کو احساس تک نہیں رہا ہے کہ زوال کی طرف اس سفر میں اوّل ٹھہراؤ پیدا کرنا اور بالآخر ملک کو واپس استحکام کے سفر پر رواں کرنا ہماری اولین ذمہ داریاں ہونی چاہئیں۔ آج کی کمزور معاشی صورتحال ایک ڈراؤنے خواب کی طرح حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ عمران خان کی حکومت سے پہلے نواز شریف کی حکومت کے دورانیہ تک نہ ہی معاشی حالات اتنے گئے گزرے تھے اور نہ سیاسی معاشرہ آج کے حالات کی طرح منقسم اور تلخ تھا۔ 2014کےانتخابات کے نتائج متنازع تھے مگر ابتدا میں تو پی ٹی آئی چیف نے صرف چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا، مسلم لیگ ن پارلیمنٹ کے اندر بھاری اکثریت میں حکومتی بنچوں پر براجمان تھی، اگر احتجاج عروج پر پہنچنے سے قبل قومی سطح کے سیاسی کردار، باہمی گفت و شید کے ذریعہ اس وقت درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو نہ ہی عمران خان کادھرنا اتنا طویل ہو پاتا اور نہ ہی ملکی معیشت کو اربوں کے نقصانات اٹھانا پڑتے، تینوں بڑی جماعتوںمسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ایسے قدآور سیاست دان نہ سر اٹھا سکے جن کی مدد سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا، ہر کوئی جماعتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتا رہا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی معیشت، ملکی استحکام اور قومی یگانگت کو نقصانات دیرپا اثرات کے ساتھ اٹھانے پڑے، دھرنے کے دوران تقسیم کی جو لکیریں کھنچ گئیں ان کے نقوش آج ملکی سیاست میں ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں، دھرنے کے جواز میں جائے بغیر پاکستانی سیاست میں یہ ایک اہم واقعہ ہے جس کے نتائج اور اثرات آج ملکی سیاست میں نظر آتے ہیں۔ اگر قومی سطح کی قیادت ایک موثر انداز میں اس دھرنے کو آگے بڑھنے سے روک لیتی تو ملک کو اربوں ڈالر کے معاشی نقصانات سے بچایا جا سکتا تھا۔ مضبوط قومی کردار والے سیاستدان نہ ہم اس وقت تلاش کرسکے اور آج کی صورتحال تمام حوالوں سے ان گزشتہ واقعات سے زیادہ سنگین ہے، حکومت اٹھتے بیٹھتے یہی پیغام دے رہی ہے کہ ملک مشکلات کی لپیٹ میں ہے، انتخابات کے بعد حکومت بن چکی ہے مگر یہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں خلائی قوتوں کی نمائندگی عوامی نمائندوں کے برابر ہے، جہاں خلائی قوتیں اہم وزارتوں پر قبضہ جما چکی ہیں، معاملات خواہ کراچی سٹیل مل، پی آئی اے اور کئی دیگر قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے ہوں، ان تمام اہم فیصلوں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سونپ دی گئی ہے جو بہت طاقتور ہیں، ان کو عوامی احساسات اور نجکاری کی صورت میں روزگار ختم ہوجانے کے نقصانات کی پروا نہیں، ملک کی حزب اختلاف (پی ٹی آئی) کو بے بس کردیا گیا ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان اور جماعت کے کم و بیش 50قومی سطح کے قائدین جیلوں میں بند ہیں اور ان کے مقدمات میں آئے دن کے اضافے اس جماعت کیلئے بے شمار مشکلات پیدا کر رہے ہیں مگر ہمارے ملک میں قومی سطح کے قائدین ایسے اقدامات کو نہ ہی چیلنج کر رہے ہیں اور نہ ایک ’’سیاسی مقتدرہ‘‘ کی طرح معاملات کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرنے کو تیار ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہ ’’سیاسی مقتدرہ‘‘ پی ٹی آئی حوالے سے اقدامات کرنے کو تیار ہوجائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں، قومی سطح کے سیاسی قائدین کا ایک اپنا مقام ہے، ان میں اکثریت عوام کے درمیان اٹھتی بیٹھتی ہے، جماعتوں کی شکل ایسی ہستیاں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود ہیں مگر آج بدقسمتی سے ہمیں سیاست میں قائدین نہیں مل رہے، ویسے آج کے ملکی حالات متقاضی ہیں کہ لوگ مملکت پاکستان کے اندر استحکام کیلئے بات کریں، جب آج حکومت بے بس، کمزور اور بغیردرست آئیڈیا کے سیاسی سمندرمیں ہچکولے کھا رہی ہے تو لازم ہے کہ پاکستان کی خاطر وہ اقدامات اٹھا لئے جائیں جن سے ان کو ایک طرف خوف بھی ہے۔ عمران خان ایک قومی سیاستدان ہیں، ان کی جماعت قومی سیاست کے ہر میدان میں موجود ہے اور سب سے یہ کہ پاکستانی عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سے والہانہ لگاؤ رکھتا ہے، بقول کسے ’’حکومت حکمت ہوتی ہے‘‘۔ طاقت کے تمام لیورز حکومت کے ڈسپوزل پر ہیں اور ایک آزاد عمران خان ایک قیدی عمران خان کی نسبت زیادہ کمزور ہے۔ حکومت کو ایک موثر اور جرأت مندانہ سوچ اختیار کرتے ہوئے عمران خان کے معاملات طے کرنے میں جلد پہل کرنی چاہئے، آج پاکستانی سیاست میں کئی قدآور شخصیات موجود ہیں جو یہ تسلیم کرتی ہیں کہ حکومت اور عمران خان کے درمیان دوریاں ختم ہوجائیں کیونکہ ایسا نہیں ہو پاتا تو بالآخر نقصان ریاست پاکستان کو ہی ہوگا، معاملات طے ہونے چاہئیں ایک ایسا بیانیہ جس سے اکثر پاکستانی اتفاق کرتے ہیں۔