خاموش نہیں رہ سکتے تو آواز نیچی

May 01, 2024

کیا آپ پرکبھی ایسا لمحہ گزرا ہے ، جس میں آپ کی نہایت مناسب بات کو دوسرا شخص مگر نہایت بھونڈے دلائل سے غلط ثابت کر رہا ہو۔ اس کے ساتھ اس طرح کے د وتین اور بھی بیٹھے ہوں ، جو الٹا اسی کی تائید کر رہے ہوں ۔ قصور وار دوسرا شخص نہیں بلکہ آپ خود ہیں ۔ عقل صرف یہ تو نہیں کہ انسان فہم و فراست کی گتھیاں سلجھا نے لگے ۔ یہ گتھیاں سلجھا کر بیان کس کے آگے کرنی ہیں ، سب سے اہم بات تو یہ ہے ۔ میاں محمد بخش نے فرمایا تھا

خاصاں دی گل عاماں اگےنئیں مناسب کرنی

مٹھی کھیر پکا محمدؔ کتیاں اگے دھرنی

ایسا کیوں ہوتاہے کہ ایک شخص جیسے ہی ہمارے نظریات کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو ہم بجائے خاموشی کا بے مثال ہتھیار استعمال کر نے کے ،اس پہ حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ جبلت اس وقت اس خونخوار درندے کی طرح حریف پہ حملہ کرتی ہے ، جیسے بھوکے کتے کو گوشت کا ایک ٹکڑا دکھائی دے جائے تو وہ حملہ ہی کرے گا۔ انسان کی جبلتیں کتے ، شیر اور ریچھ سے ہرگز مختلف نہیں بلکہ انہی سے ارتقا ہوئی ہیں ۔ حیاتیات کو اس پر کوئی شک و شبہ نہیں کہ گریٹ ایپس ،جن میں انسان بھی شامل ہے پرائمیٹس، میملز، اور ریپٹائلز ہی سے ارتقا ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سانس لینے سے لے کر اولاد پیدا کرنے تک، انسانوں میں سب کچھ وہی ہوتاہے ، جو جانوروں میں ہوتاہے ۔ شیخ ِ ہجویر ؒ نے فرمایا تھا: ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کیلئے ضروری ہے۔ ایک عام شخص ہمیشہ ماضی کے دکھوں میں غم زدہ اور مستقبل کے اندیشوں میں خوف زدہ رہتا ہے۔علم والے ایسے نہیں ہوتے ۔جب مسلسل غور و فکر کے ذریعے، عقل کا ہاتھ تھام کر انسان جبلتوں کو سدھار لیتا ہے تو پھر اسے اپنی زندگی میں پیش آنے والے حادثات متاثر نہیں کرتے۔ نفع و نقصان، کامیابی اور ناکامی، خوشی اور غمی، ایسے شخص کیلئے معمول کی بات بن جاتی ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ غم اور خوف سے آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ جسے اپنے جذبات پر کنٹرول ہو۔ اپنے خیالات پہ کنٹرول ہو۔ صحیح معنوں میں زندگی تو ایسے ہی لوگ گزارتے ہیں ۔

انسان جب دنیا میں آتا ہے، سب سے پہلے اس کا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پھر وہ باہر نکلتا ہے۔ا سکول، کالج میں اسے دوستوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پھر اس کا اپنے بیوی بچوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ آپ کے بہن بھائیوں، والدین، بیوی اور بچوں کا مزاج بھی آپ کے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ ہر شخص کی اپنی ایک افتادِ طبع ہوتی ہے۔ میرے والد اکثر لکھا کرتے کہ انسان اپنے تجزیے پر نہیں بلکہ اپنی افتادِ طبع پر زندگی گزارتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمی سطح پر آپ جانتے ہیں کہ کسی بات پر بحث کا فائدہ نہیں لیکن آپ کا مزاج آپ کو بحث پر اکساتا ہے۔

جب سامنے موجود شخص کی کسی بات پر ہمیں غصہ آتا ہے تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اوّل یہ کہ آپ کا موقف درست ہے یا یہ کہ آپ کا موقف غلط ہے۔ اگر آپ کا موقف درست ہے لیکن سامنے موجود شخص اسے غلط کہہ رہا ہے تو 99فیصد صورتوں میں‘ آپ کو اپنے صحیح ہونے پر اصرار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ نہ ہی دوسرے شخص کے آپ کو غلط کہنے سے آپ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں تو وقت گزرنے کے ساتھ حالات اس بات کی گواہی دیں گے اور زیادہ تر لوگ آپ کا موقف ہی درست تسلیم کرلیں گے ۔

90 سے 95 فیصد صورتوں میں اپنی بات پر اصرار اور بحث سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر آپ خاموشی اختیار کر لیں تو اس کے بیش بہا فوائد ہیں ۔ سب سے پہلا اور بنیادی فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنی توانائی فضول بحث میں ضائع کرنے کی بجائے اسے فائدہ مند کاموں کیلئے بچا لیتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دوسرے کی غلط بات پر فوراً جارحانہ ردّ عمل دینے کی بجائے جب آپ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تو اس سے دلوں میں رنجشیں پیدا نہیں ہوتیں۔ آپ کا اپنے اہلِ خانہ، رشتے داروں اوردوستوں کے ساتھ اَنا کا تصادم شروع نہیں ہوتا۔ ایسے تصادم بعض اوقات معمولی بات پر شروع ہوتے ہیں لیکن پھر یہ ساری عمر جاری رہ سکتے ہیں۔ جب آپ خاموشی اختیار کرتے ہیں توغلط بات کرنے والا آخر خود شرمندہ ہوتاہے ۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ خود ہی غلط ہوتے ہیں لیکن وقتی طور پر اپنے آپ کو درست سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

دنیا میں صفر اعشاریہ ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں، جو خامیوں کو درست کرنا تو دور کی بات ہے ، انہیں جان لینے میں بھی کوئی دلچسپی رکھتے ہوں ۔ 8ارب انسان Reflexپر چلتے ہیں ۔ ریفلکس کیا ہے ، جبلت۔ جیسے بھوکا کتا گوشت دیکھے تو حملہ نہ کرے تو اور کیا کرے ۔ یہ ریفلکسز کیوں انسان میں رکھی گئی ہیں ، تاکہ انسان اللہ کی دی ہوئی عقل کی مدد سے اس پر قابو پانے کی کوشش کرے ۔ جینز میں ایک ذرا سی تبدیلی کر دی جاتی تو دنیا کے تمام انسان چمپنزیوں کی طرح لڑاکا ہو نے کی بجائے ایک دوسرے گریٹ ایپ بونوبو کی طرح امن پسند ہو جاتے ۔

پھر آزمائش تو نہ باقی رہتی۔ بہرحال دوسروں پر یہ ثابت کرنا بالکل بھی ضروری نہیں کہ آپ جو کر رہے ہیں، وہ درست ہے۔ خاموشی سے زندگی بدل کے رہ سکتی ہے ۔انسان اگر خاموشی اختیا رنہیں کر سکتا تو کم از کم اختلافی گفتگو کے درمیان اپنی آواز بلند نہ ہونے دے ۔ اس سے بھی جنگ ٹل جاتی ہے ۔