پلاشٹک کی حکومت اور سلگتے مسائل

May 25, 2024

قارئین کرام!میرا ایک دیرینہ نیم خواندہ کسان دوست ہے ،اس کا اصلی نام بھی وسیع اور خیر کے معنی کا حامل ہے لیکن میں نے اس کا فرضی نام اس کے باکمال ابلاغ جوہر اور اس کے اظہار کی اعلیٰ صلاحیت پر غالب دانش رکھا ہے یوں کہ دانش اپنے سٹریٹ وژڈم سے ایک لفظ چھوٹے سے جملے سے بڑے بڑےصاحب علم افراد کو مغلوب کر دیتا ہے لیکن اس کے فرضی نام کا استعمال میں خود بھی بہت احتیاط سے اس کے فن ابلاغ کے اعتراف میں اسکی موجودگی یا ایسی محفل میں استعمال کرتا ہوں جو غالب دانش کو جانتے ہیں اور اس کے اصل نام کی جگہ فرضی نام کی مصلحت کو خوب سمجھتے اور یہ بھی کہ دانش اپنے وسیع المعانی نیم سیاسی بیانیوں کے عام ہونے سے ڈرتا ہے اس کا سماجی نوٹس ہے کہ چھوٹے موٹے سیاسی چٹکلوئوں پر جتنے لوگ تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو کئی دوستوں کے منہ بھی بن جاتے ہیں۔میرا یہ نیم خواندہ کسان دوست خیبر پختونخواہ میں اپنے بھائی کےساتھ چھوٹے سے بارانی رقبے پر مونگ پھلی کی کاشت کرتا ہے یوں بیج ڈال کر دونوں بھائی بارش کیلئے اللہ توکل کر تےہیں، کبھی خشک سالی کے باعث مزدوری کی تلاش کرتے ہیں۔ دانش غالب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر دم اپنے سے زیادہ پاکستان کی فکر میں رہتا ہے ۔فکر بھی اس کی پاکستان کے دنیا پر غلبے کی رہتی ہے یا پھر غریب مزدور کسانوں کی، تجسس بلا کا ہے ہر واقعہ کا جو سیاسی ہو یا سیاست پر اثرانداز ہونے والاہو اس پر اس کے ذہن میں سوال قطار اندر قطار جمع ہو جاتے ہیں اور وہ موقع پا کر سیانوں سے سوال کرنا شروع کر دیتا ہے، تمیز دار اتنا کہ تاک میں رہتا ہے کہ جواب دینے والا کون کون اپنی تعلیم کی وجہ سے سیاست کو مجھ سے زیادہ سمجھتا ہے اور یہ کہ کب وہ اتنا فارغ ہے کہ میرے دو چار سوالوں کے جواب دے دے، کہتا ہے سر جی میرے ذہن میں اتنے سوال آتے ہیں کہ میں اپنے سوال اپنے پڑھے لکھےدوستوں اور چاہنے والوںبانٹ دیتا ہوں ،جواب بھی مختلف ملتے ہیں تو ایسے مجھے سیاست کا بہت کچھ پتہ چل جاتا ہے یقین جانئے غالب دانش کو خبر ہی نہیں کہ وہ خود کتنا بڑا دانشور اور تجزیہ کار ہے۔

آج کل غالب دانش کے موضوع اور سوال کچھ یوں ہیں :دھکے سے بنی حکومت کیسے چل رہی ہے؟ جب پنجاب اور صوبے میں گندم کی فصل اتنی اچھی نظر آ رہی تھی تو ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر کی گندم کیسےاور کیوں منگائی؟ کس نے منگائی ؟ وہ ابھی تک چھپا ہوا کیوں ہے؟ پھر بجلی کے بجلی گرانے والے بل، پٹرول سستا ہونے پر کرائے کم نہ ہوئے اور مہنگا ہونے پر ہر چیز مہنگی کیوں ہو جاتی ہے۔ اس کا کیا خوب عوامی نوٹس ہے کہ جب بھی ن لیگ کی حکومت آتی ہے گندم کا کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور بنتا ہے۔ کہتا ہے ذرا بات پرانی ہوگئی، شور مچا تھا کہ شیر آٹا کھاگیا، بعد میں پتہ چلا پنجاب سے بہت زیادہ گندم افغانستان اور اسکے پار ممالک بھی بھیجی ہے۔ غالب دانش کو یہ بھی یاد ہے کہ لاہور میں سستی روٹی کیلئے شہباز شریف نے مشینی تنور نان بائیوں کو بانٹے تھے ، چھ سات ارب روپے ان تنوروں پر لگے لیکن یہ تیزی سے بند ہوتے ہوتے ختم ہوگئے۔ گزشتہ رمضان میں تو غالب دانش خود بھی سخت پریشان رہا اور فون کرکے کئی دوستوں کو بھی پریشان کرتا رہا۔ کہتا رہا ان کو آٹا بانٹنا بھی نہیں آ رہا۔ اگر ایک بندہ بھی آٹا لیتے مرنا تھا تو پھر ایسا آٹا تو نہیں بانٹنا چاہیے تھا۔ اور یہاں تو روز آٹا کا تھیلا بٹنے پر بندے مر رہے ہیں اور ہماری غریب بہنیں بھی۔ شاہد خاقان عباسی کے آٹا چوری کے بیانات سے تو جیسے وہ پاگل ہوگیا۔ کہتا ہے بانٹے گئے آٹے میں 20 ارب روپے کی چوری ہوگئی ہے، وہ تو ان کا اپنا آدمی اور بڑے میاں کا خاص آدمی ہے، اس نے تو اس کو وزیر اعظم بھی بنایا تھا تو یہ 20ارب کا آٹا چوری کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑتے۔ اس کا سوال بھی تکرار سے ہوتا رہا کہ اتنے برے حالات میں بھی آٹے کا اتنا بڑا حصہ چوری ہوگیا تو اگر ن لیگ کا حکومت چوروں کو نہیں پکڑتا تو یہ بڑی عدالت والے جج خود بغیر درخواست والا نوٹس لے کر کیوں نہیں پوچھتا کہ یہ آٹا چوری کیسے ہو گیاتھا اور وہ بھی 20 ارب کا۔ کس کس نے کیا؟ اب بقول خود غالب ایک ماہ گندم کے کسانوں کے غم میں تیزی سے گھل رہا ہے۔ اتنے سوال کرتا ہے کہ کوئی نہ کوئی جواب نہ دینا بھی کفر لگتا ہے جبکہ دینے پر بھی اس کی تسلی نہیں ہوتی۔ وہ کہتا ہے حکومت نے جب کسانوں کو خریداری کا زبان دیا تھا توحکومت اب گندم کیوں نہیں خریدتا؟ اور اس نے سرکار سے باہر کے منافع خوروں کو کیوں سستی اور گھٹیا گندم منگانے دیا اور مجھے تو سیانے لوگ بتا رہے ہیں کہ سرکار نے بھی گندم منگایا، اس میں کیڑےوالا بھی ہے۔ اب وہ سڑک پر آ کر شور وور مچاتا ہے تو حکومت اسے گرفتار کرلیتا ہے۔

میں اور غالب دانش کے لاہوری دوست اس کے سلگتے عوامی مسائل پر اس کے سوال اور کڑوے تبصرے سن سن کر پاگل ہوگئے ہیں، کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ ہمیں ملزم سمجھ کر خود تفتیش کر رہا ہے۔ سو علاج اسکا یہ نکالا کہ الٹے اس پر سوال کی بوچھاڑ کردی جائے۔ لاہور آیا تو حسب معمول یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اساتذہ نے سوال داغ دیا سنائو غالب حکومت کیسے چل رہی ہے؟ جواب تھا ’’سر جی! یہ تو آپ سب کو مجھ سے زیادہ پتہ ہے ہم تو آپ سے پوچھ پوچھ کر جانتا ہے، لیکن سرجی مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ تو پلاشٹک (پلاسٹک)کی ہے۔ ایک قہقہہ لگا دو تین نے بیک وقت کہا واہ واہ، کیا بات ہے کیا تبصرہ ہے کمال کا۔ TWO WORD ANALYSIS ہے کتنا درست اور کتنا جامع۔ جب سب کو واضح محسوس ہوا کہ غالب دانش آتے ہی چھا گیا ہے تو میں نے پوچھا، دانش تمہارا کیا مطلب ہے کہ یہ حکومت تمہیں پلاسٹک کی لگتی ہے۔ فوراً بولا، سرجی الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ سب کو پتہ ہے۔ خود حکومت والے بھی مانتا ہے، مولانا فضل الرحمٰن بھی مانتا ہے۔ آپ خود دیکھو نہ ایک اصلی کار ہوتا ہے ایک بچہ وچہ کو کھیل میل کیلئے پلاشٹک کی کھلونے والا کار بناتا ہے۔ ایسے ہی ہماری حکومت بھی اصلی والا تو نہیں ہے، یہ پلاشٹک کا لگتا ہے۔ ایک پروفیسر صاحب نے کہا غالب وہ گندم تونگران حکومت نے باہر سے منگائی ، جواب آیا، وہ انوار کاکڑ نے بھی حنیف عباسی کو بولا ہے، چپ کر جائو وہ پھارم (فارم) 45 دکھائوں گا تو تم منہ دکھانے کے قابل نہ ہو گا‘‘۔ کسانوں کا رونا دھونا، گھروں میں یوکرین کی ناقص گندم سے بیزاری، کسانوں کے خسارے پر احتجاجی مظاہرے سلگتے عوامی مسائل میں ایک بڑے مسئلے کا اضافہ تو ہے۔