انصاف کا دریا

May 26, 2024

پاکستان میں انصاف کا دریا پیاسوں کی پیاس بجھاتا تو رہا ہے۔ ہاں دیر سویر ہو جاتی رہی ہے مگر اب کی بار تو کچھ یوں ہو رہا ہے کہ

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

صرف ساحل ہی دھول دھول نہیں ہوا، دریا میں بھی طغیانی آئی ہے۔ بے شک لوگوں کو انصاف کی فراہمی کسی بھی حکومت یا ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ شکایات معمولی نو عیت کی ہوں یا سنگین نو عیت کی مگر اُن کا ازالہ ضروری ہے۔ بے انصافی، بد انتظامی غفلت یا کرپشن جیسے معاملات پر لوگوں کی شکایات کا ازالہ شفاف اور جلد ایک کائناتی ترجیح ہے۔ نا انصافی معاشرے کیلئے زہر قاتل ہے۔ میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے معاملات کی طرف نہیں جانا چاہتا کہ وہاں بجلیاں کڑک رہی ہیں۔ میں تھوڑا نیچے کی چیزوں پر دھیان دینا چاہ رہا ہوں کہ پنجاب میں خاص طور پر پولیس، ریونیو، تعلیم، صحت، لوکل گورنمنٹ کے محکموں کی شکایات میں تیزی سے اضافہ ہوا مگر یہاں میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا کیونکہ پنجاب میں کم از کم ایک ادارہ ایساہے جو صرف 45سے 60یوم میں پولیس اور لوکل گورنمنٹ سے متعلق شکایات کا تیزی سے ازالہ کر رہا ہے۔ مجھے یہ بات جب عبدالباسط نے کہی تو میں ہنس پڑا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا تو انہوں نے کہا آپ اس ادارے کی ہیلپ لا ئن ایک صفر پانچ صفر پر شکایت درج کرا کے چیک کر لیں۔ میں نے شکایت درج کرا دی کہ فلاں تھانے کی پولیس میری ایف آر درج نہیں کر رہی۔ آدھے گھنٹے میں فون کالوں کا تانتا بندھ گیا۔ میرے لئے جان چھڑانی مشکل ہو گی۔ پھر میں نے سوچا کہ مجھے اس ادارے کے بارے میں اور اس کے سربراہ کے بارے میں ضرور کچھ لکھنا چاہئے۔ یہ محتسب پنجاب کا دفتر ہے۔ میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان خان اس کے سربراہ ہیں۔ اغوا اور بچوں سے متعلق جرائم یابد اخلاقی کے واقعات کی صورت میں بھی یہاں رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو کسی وکیل کی ضرورت نہیں۔ آپ نے کسی قسم کی کوئی فیس ادا نہیں کرنی۔ آپ کہیں ملازمت کے حصول کے لئے گئے ہیں اور آپ کو محسوس ہوا ہے کہ یہاں بے قاعدگی اور بے ضا بطگی ہوئی ہے تو آپ فوراً محتسب کے دفتر پہنچیں۔ کسی طرح کا بھی جرم یا حق تلفی کا معاملہ ہے یہ دفتر آپ کے انتظار میں ہے۔ آپ کو پینے کیلئے صاف پانی میونسپل کمیٹی فراہم نہیں کر رہی یا سیوریج سسٹم یا سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کا معاملہ ہے۔ ہسپتالوں میں نا کافی سہولتیں ہیں، ایکسرے، سٹی سکین یا ایم آر آئی جیسی مشینوں کی بحالی یا عدم فراہمی کا مسئلہ ہے، غیر قانونی تجاوزات کا قصہ ہے۔ قبضہ گروپ سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ زمینوں کی نشاندہی یا فرد ملکیت فراہم نہیں کیے جا رہے، ریونیو ریکارڈ میں درستگی نہیں ہو رہی۔ صوبائی حکومت کے کسی محکمے میں کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا محتسب کے دفتر میں جائیے ۔شکایات کا فوری ازالہ ہوتا ہوا آپ کو دکھائی دے گا۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ ایک فون کال پر اتنے یقین سے یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ محکمہ عوام کو واقعتاً ریلیف دے رہا ہے۔ خدا گواہ ہے میں نے صوبائی محتسب کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوئی۔ بس اتنا ہوا ہے کہ اس سارے چکر میں مجھے 2023 کی صوبائی محتسب کی سالانہ رپورٹ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ تین محکمے جس میں پولیس، لوکل گورنمنٹ اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ شکایت کے حوالے سے اول، دوم اور سوم پوزیشن میں ہیں۔ صوبائی محتسب کا دفتر 1996میں ایک آرڈیننس کے تحت قائم کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ بات قابل تحسین ہے کہ گزشتہ 23برسوں کے دوران 318944 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 317898شکایات نبٹائی گئیں، ہر سال اوسط شکایات کی موصولی 13867جبکہ اوسطاً 13822 شکایات نبٹائی گئیں لیکن یہ امر قابل ذکر اور لائق تحسین ہے کہ گزشتہ چار سال کے ادوار میں 96643شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ جبکہ اوسط ہر سال 24100شکایات موصول ہوئیں جبکہ 23661 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ لیکن ایک بات اس رپورٹ کی بہت قابل ستائش اور چونکا دینےوالی ہے کہ گزشتہ ساڑھے 3سال کے دوران ان شکایات کے ازالے کے نتیجے میں 38.212بلین رقم کا ریلیف دیا گیا جس میں شکا یات کنندگان کو 12.276 بلین رقم کی ادائیگی کی گئی اور 25.937بلین کی سرکاری زمین سے ناجائز قبضے ختم کرانے کی مد میں وصول کیے۔ یہ وہی دورانیہ جس میں صوبائی محتسب میجر ریٹا ئرڈ اعظم سلیمان خان ہیں یعنی کہ ان کی کارکردگی بہترین قابل رشک اور دوسرے تمام اداروں کیلئے قابل تقلید ہے۔ میں نے گوگل پر ان کے بارے میں موجود معلومات کا بھی مطالعہ کیا۔ وہ یہاں سے پہلے وفاقی سیکرٹری داخلہ تھے۔ پنجاب اور سندھ میں چیف سیکریٹری کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز بھی دیا ہے۔ ویسے گزشتہ سال ایوارڈز کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے۔ اس کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ اسی دفتر میں ایوارڈ کا مقدمہ بھی لے کر جائوں کہ جن لوگوں کو ایوارڈ دئیے گئے ہیں ان میں کتنے اہل تھے اور کتنے نا اہل پھر خیال آیا کہ یہ دفتر تو پنجاب کے محتسب کا ہے اس کیس کے لئے تو وفاقی محتسب کے پاس جانا پڑے گا۔ چلیے وہاں بھی بات کر کے دیکھتے ہیں۔ ممکن ہے وہاں بھی انہی کی طرح کی کوئی شخصیت بیٹھی ہوئی ہو۔