ایسا نہیں ہونا چاہئے!

May 28, 2024

عجیب صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین اداروں کے درمیان اختلافات اور کھچاؤ نہ صرف نظر آرہا ہے بلکہ اس میںاضافہ ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ قوم اس صورتحال سے پریشان اور اضطراب کا شکار ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی، عدلیہ اور ملک کے منتخب ایوانوں اور حد یہ کہ اب عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی محاذ آرائی کی کیفیت ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی طرح ملک وقوم کے حق میں بہتر نہیں ۔ کسی بھی عام شہری کو سمجھ نہیںآرہا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، کون کیاچاہتا ہے یا کون کس کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔پاکستان ایک مہذب ملک ہے ،مہذب ملکوں میں ایسا نہیںہوتا۔ہرکوئی آئین وقانون اور مقررکردہ حدود وقیود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے کا پابند ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئین بھی ہے اور قانون بھی، پھر اعلیٰ ترین اداروں کے درمیان اختلافات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض غلط فہمیاں ہوں لیکن غلط فہمیوں کو محاذ آرائی بنانے کےبجائے مل بیٹھ کرختم کرنا چاہیے۔ جہاں تک پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان اختلافات کی بات ہے تو اسکی بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔اگر اس جماعت کے بانی یا اراکین کےخلاف مقدمات ان اختلافات کی وجہ یا وجوہات ہیں تو ہم نےماضی میں دوبڑی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف قائم کئےگئے مقدمات کو دیکھا ہےجہاں ان جماعتوںنےقانون کے مطابق عدالتوں کاسامنا کیا۔ جیلیں کاٹیں لیکن نہ تو اس وقت کی حکومتوں کے خلاف محاذ بنائے گئے نہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی حالانکہ بعد میں بہت سے فیصلے غلط اور ناجائز ثابت بھی ہوئے لہٰذا پی ٹی آئی کو چاہیے کہ ملک وقوم کے مفاد میں حکومتی اقدامات اور معیشت کی بہتری کیلئے جاری کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنےکی ناکام کوششیں ترک کردے اور اپنے مقدمات پرتوجہ دے۔ عدلیہ، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔عدلیہ اور اس کے فیصلوں سے اختلافِ رائے ہرشہری کا آئینی وقانونی حق ہے لیکن اختلاف رائے کایہ مطلب نہیں کہ عدلیہ کی معاملہ توہین کی حدتک لے جایا جائے ،جہاں عدلیہ کے فیصلوں سے اختلاف رائے ہر شہری کا حق ہے وہاںعدلیہ کا احترام بھی ہر شہری پر واجب ہےکیونکہ اگر عدلیہ کا احترام نہ ہوتو پھر عدلیہ کے مناصب کی کیا اہمیت رہے گی۔ دوسری طرف عدلیہ کوبھی ہر صورت غیر جانبدار رہنا پڑتا ہے۔عدلیہ کے فیصلوں میں انسانی زندگی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کسی بھی غلط یا بے انصافی پر مشتمل فیصلے سے کوئی بے گناہ زندگی سے محروم ہوسکتا ہے۔ کوئی مستحق اپنا جائز حق گنوا سکتا ہے۔ اسلئے روز قیامت انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں سے ان کے ذاتی معاملات کےعلاوہ اس کرسی کے بارے بھی حساب ہوگا ۔صرف جج صاحبان ہی نہیں ہر اس شخص سے ذاتی زندگی کے علاوہ پوچھ گچھ ہوگی جودنیا میںکسی بھی منصب پر فائزرہا ہو یااللہ تعالیٰ نےکسی بھی طرح کااس کو کوئی اختیار دیا ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جج صاحبان ان باتوں کو ہم سے زیادہ جانتے اور مانتے ہیں اور وہ ہر فیصلہ مبنی برانصاف کرتے ہیں پھر بھی بحیثیت انسان غلطی ہوسکتی ہے جو اکثر نادانستہ ہوتی ہے۔ جہاں تک عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی بات ہے تو ملک میں عدلیہ کی طرح فوج بھی نہایت قابل احترام اور اہم ترین ادارہ ہے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح اس ادارے اور اس کی اعلیٰ قیادت کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس طرح9مئی کے واقعات ہوئے اورعسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ شہدا کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر ان مذموم واقعات میں ملوث افرادسے صرف نظر کیا جاتا ہے تو کیا یہ زیادتی نہ ہوگی۔کسی بھی منصب پر فائز شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کےساتھ کسی بھی طرح نا انصافی کرے، کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے یا کسی بھی اقدام یافیصلے کے وقت اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھے۔ اگر عدلیہ کی طرح ہم اپنے دفاعی اداروں اور ان کی قیادت کو نیچا دکھانے یا ان کی تضحیک کی کوشش کریں گے تواس سے ملک وقوم کا نقصان ہوگا۔بین الاقوامی سطح پرجو مقام پاک فوج اور اسکی اعلیٰ قیادت کوحاصل ہے ایسے نامناسب اقدامات سے نہ صرف اس مقام کو نقصان پہنچے گا بلکہ بیرونی دنیا میں ہماری جگ ہنسائی بھی ہوگی اور ایسا نہیں ہوناچاہیے کیونکہ یہ ملک کا نقصان ہوگا۔

عدلیہ بلاشبہ ایک قابل تکریم ادارہ ہے۔ اس ادارے میں موجود وہ جج صاحبان جو مفاد عامہ کو مقدم رکھتے ہیں نہایت قابل تحسین ہیں۔ عدلیہ کی تکریم کیساتھ ساتھ ملک کے باقی ادارے بھی قابل احترام ہیں کیونکہ یہ ادارے ملک کی اجتماعی بہتری کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ان اداروں یاان سے منسلک افراد کی تضحیک کسی دوسرے ادارے کے وقار میں اضافے کے بجائے سبکی کا باعث بن سکتی ہے اسلئے یہ ضروری ہے کہ تمام ادارے اور ان سے وابستہ افراد اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کریں۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو یہ ایک نہایت باوقار ادارہ ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ سمیت کسی بھی ادارے سے منسلک افراد کی عزت کم کرنے، مذاق اڑانے یا نیچا دکھانے کا حق کسی کوحاصل نہیں ہے۔ آئینی وقانونی اختیارات کے استعمال کے لئے بھی حدود متعین ہیں۔ ایسانہیں ہونا چاہئے کہ کوئی اختیارات کے استعمال کے لئے بھی حدود سے باہر نکل کر اقدامات کرے۔ چاہے کوئی کسی ادارے سےوابستہ ہویا عام شہری ہو عزت نفس ہر ایک کی مقدم ہے۔ قانون واختیارات کو موم کی ناک نہیں بنانا چاہئے۔ کسی نے کہا تھا کہ یہاں قانون مکڑی کا وہ جال ہے جس میں کمزور پھنستا ہے اور طاقتور اس کو توڑ کرنکل جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں انصاف کے دروازے سونے کی چابی سے کھلتے ہیں۔ اسلئے اپنے اپنے اختیارات کو بے دریغ استعمال کرنے کے بجائے انصاف کو مدنظر رکھنے میں ہی ملک وقوم کی بہتری اور عزت و وقار ہے۔