ایک بار پھر کشکول توڑنے کا اعلان

June 17, 2024

ترازو … محمد بلال غوری
شہبازشریف بہت باکمال شخص ہیں، ترنگ میں آتے ہیں تو بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ سرمایہ کاری کیلئے قائم کی گئی خصوصی سہولت کاری کونسل (SIFC) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قوم کو خوشخبری دی تھی کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے۔ اگر وہ بندہ ناچیز کے مشورے پر کان دھرتے تو میں ان سے التجا کرتا کہ براہ کرم کشکول نہ توڑیں، ملک کو کسی بھی وقت اس کا سہ گدائی کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور معاشی مشکلات کے اس دور میں نیا کشکول کہاں سے بنواتے پھریں گے۔ مگر عیدالاضحی کے موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ وعدہ کرتا ہوں موجودہ عالمی مالیاتی فنڈ کا پروگرام پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگرام ہوگا، مستقبل کا راستہ چُن لیا ہے۔ عوامی پیسے پر عیاشی نہیں ہوگی، قوم کا ایک ایک دھیلا ملکی ترقی پر خرچ ہوگا۔ جو قربانی دینا پڑے گی ملکر دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جب بھی ملک ترقی کرنے لگتا ہے، کوئی حادثہ ہو جاتا ہے۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ کشکول مزید قرض نہ لینے کی نیت سے نہیں توڑا گیا تھا بلکہ اب چونکہ قرضوں کا حجم بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، پرانا کشکول کم پڑ رہا تھا اسلئے اسے توڑ کر نیا اور بڑا کشکول تھام لیا گیا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ میاں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو ’’قرض اُتارو ملک سنوارو‘‘ مہم چلا کر قوم کو خوشخبری دی گئی کہ بس اب کشکول توڑ دیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں معلوم ہوا کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو قوم کو خوشخبری دی گئی کہ آئی ایم ایف سے آخری بار قرض لیا جا رہا ہے اسکے بعد ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائینگے۔ بتایا گیا کہ ریکوڈک میں سونے اور چاندی کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ 12فروری 2015ء کو ایک نیا جیک پاٹ ڈھونڈ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور وزیراعظم میاں نوازشریف نے چنیوٹ پہنچ کر جلسہ عام کے دوران انکشاف کیا کہ آپ کے علاقے رجوعہ سادات میں سونے، تانبے اور لوہے کے اتنے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں کہ سب مشکلیں کافور اور اندھے راستے پرنور ہو جائینگے۔ لیکن خوش بختی کا یہ دور شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ چنیوٹی خزانہ کدھر گیا اور شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد آئی ایم ایف کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑنے کے بجائے چنیوٹ سے یہ سونا نکالنے کی کوشش کیوں نہ کی؟یہی قصے کہانیاں سنا کر عمران خان نجات دہندہ کے روپ میں تشریف لائے۔ جب اپوزیشن میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ خودکشی کر لوں گا مگر قرض نہیں لوں گا۔ جنوری 2019ء میں غیر ملکی کمپنیوں پر مشتمل کنسورشیم نے ’’کیکڑا ون‘‘ منصوبے کے تحت برماکاری کا آغاز کیا۔ دنیا بھر میں اس طرح کے منصوبوں میں کامیابی کا امکان 15سے 20فیصد ہوتا ہے لیکن کپتان کو یقین تھا کہ ’گیس‘ یہیں سے نکلے گی۔ چنانچہ انہوںنے 21مارچ کو صحافیوں سے ملاقات کے دوران خوشخبری سنادی کہ ملک کے حالات بدلنے والے ہیں۔ 8اپریل کو ایک ٹاک شو میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے پورے وثوق کیساتھ یہ نوید دی کہ ایک ہفتے، دس دن، دو ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر اتنی نوکریاں آجائینگی کہ بندے کم پڑ جائینگے۔ 18مئی کو عمران خان شوکت خانم اسپتال پشاور کا سنگ بنیاد رکھنے اور فنڈز جمع کرنے گئے تو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء سے اپیل کی کہ آج آپ کو دو نوافل ضرور پڑھنے ہیں کیونکہ کراچی کے قریب سمندر میں گیس کا کنواں کھودا جا رہا ہے۔ ایک ہفتے میں پتہ چل جائے گا، ہوسکتا ہے اتنا بڑا ذخیرہ مل جائے کہ اگلے پچاس سال تک باہر سے گیس منگوانے کی ضرورت نہ پڑے۔ جب وزیراعظم پشاور میں عوام کو ترقی و خوشحالی کے جھوٹے خواب دکھا رہے تھے تو اسلام آباد میں انکے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر بتا رہے تھے کہ کراچی سے 280 کلومیٹر دور سمندر کی تہہ میں جو کھدائی ہورہی تھی، ساڑھے پانچ ہزار میٹر ڈرلنگ کے بعد اسے روک دیا گیا ہے کیونکہ وہاں سے تیل یا گیس ملنے کا کوئی امکان نہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ کشکول توڑنے کے اعلان کو خوشخبری سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے کیونکہ ماضی میں جب کبھی ایسا ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں قرضوں کا حجم مزید بڑھا ہے۔ آئی ایم ایف سے آخری پیکیج لینے کا بھی شاید یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کا آخری پروگرام ہے۔ ہمارے بعد جو عنان اقتدار سنبھالیں گے، وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ ہاں البتہ وزیراعظم صاحب نے ازراہ تلطف ملکر قربانی دینے کا جو عزم ظاہر کیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ خیر سگالی پر مبنی اس بیان کی مثال عیدالاضحی پر قربان کئے جارہے جانوروں جیسی ہے۔ ہم بھی کہنے کو تو یہی کہتے ہیں جانور اور ہم ملکر اللہ کی راہ میں قربانی دے رہے ہیں مگر چھری بکرے کے حلقوم پر ہی چلتی ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے دی جانے والی ہر قربانی بھی اسی طرح ملکر دی جائے گی۔ مثلاً وزیراعظم صاحب نے صنعتکاروں کیلئے تو بجلی 10روپے فی یونٹ سستی کرنے کا اعلان کیا ہے مگر عوام کیلئے بجلی کے نرخوں میں مزید پانچ روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ محولا بالا تقریر کے دوران جناب وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ ملک کی اشرافیہ شاہانہ زندگی گزار رہی ہے، ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے پرلگ رہا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وزیراعظم صاحب یہ گلہ کس سے کر رہے ہیں؟ کیا سربراہ حکومت سے اوپر بھی کوئی حکومت ہے؟ احسن اقبال صاحب کی بھی سن لیں۔ فرماتے ہیں، لوگ کہتے ہیں ملک نے ترقی کرنی ہے تو بانی پی ٹی آئی کو پانچ سال جیل میں رکھیں۔ تکلف برطرف، نیا پاکستان بننے کے بعد بھی یہی کہا جاتا تھا کہ نوازشریف کو جیل میں رکھیں ان کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا۔