کیمرے میں دماغ نہیں ہوتا

June 22, 2024

جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں، اس میں نت نئی ایجادات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسی ایجادات جو زندگی بدل دیتی ہیں۔ پہیے اور پھر صدیوں بعد انجن کی ایجادنے اس دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ آواز یا منظر ہزاروں میل دور پہنچا دینا ایک جادو جیسا عمل نہیں تو اور کیا ہے۔ وہ شخص جس کے پاس علم نہ ہو، اس کے لیے تو یہ جادو ہی ہو گا۔

اب تو دوسرے سیاروں سے بھی ڈیٹا زمین پہ بھیجا جاتا ہے۔ مریخ پہ موجود چلتی پھرتی لیبارٹریز زمین پہ ڈیٹا بھیج رہی ہیں۔ جب ایک بہت بڑے سائنسدان آنجہانی سٹیفن ہاکنگ سے پوچھا گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی ایجاد اس کی نظر میں کیا ہے تو بولا : پرنٹنگ پریس۔ یہ پرنٹنگ پریس ہی تھا، جس کی وجہ سے دنیا کے عظیم اذہان ایک دوسرے سے علم کا تبادلہ کرنے لگے اور یوں علم کی دنیا میں ایک انقلاب آ گیا۔

آج کل سوشل میڈیا کی دنیا میں بھی ایک علم کا ایک دوسرے سے تبادلہ کیا جاتا ہے لیکن علم کے تبادلے سے زیادہ وہاں متحارب طبقات ایک دوسرے کو ذلیل کرنے پہ اپنی توانائیاں لگاتے ہیں۔ آج کل یہ سوال سوشل میڈیا پہ پوری شدو مدسے اٹھایا جا رہا ہے کہ آپ تاریخی ریکارڈ سے ثابت کریں کہ ابراہیم علیہ السلام نامی کوئی شخصیت تاریخ میں گزری بھی ہے یا نہیں۔ مقصد ہرگز ابراہیم علیہ السلام کو جھٹلانا نہیں بلکہ ابراہیم ؑ کے رب کو۔ یہ ثابت کرنا کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں۔ اپنے آپ سب سپیشیز اتفاقاً وجود میں آئیں اور اتفاقاً ان میں سے ایک یعنی انسان زیادہ ذہین ہو گیا۔

اسی طرح ایک دفعہ وجودِ شیطان کے تصورکا مذاق اڑایا گیا تھا۔ یہ کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ یقین رکھتے ہیں کہ شیطان نامی ایک مخلوق پائی جاتی ہے اور رمضان المبارک میں قید بھی کر دی جاتی ہے۔ یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے کہ رائج مذہبی تصور کو اٹھا کر اس کا مذاق اڑائیں تاکہ ردّعمل کی وجہ سے آپ کی پوسٹ ہٹ ہو۔

اگر آپ گہرائی میں دیکھیں تو شیطان کی اپنی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کی اہمیت وجودِ خدا کی وجہ سے ہے۔ کسی پیغمبر کی اہمیت بھی وجودِ خدا ہی کی وجہ سے ہے کہ ایک خالق ہے اور یہ شخص اس کا پیغمبر ہے۔ تو اصل سوال نہ شیطان کی موجودگی کا ہے اور نہ ابراہیم علیہ السلام یا کسی اور پیغمبر کی موجودگی کا ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ خدا ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو بس پھر آپ اپنی زندگی موج مستی سے گزارنے اور عبادت کی زحمت سے بچنے کیلئے آزاد ہیں۔ اگر کسی خدا کا وجود پایا جاتا ہے۔ کسی خدا نے اگر پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک سپیشیز کو لباس پہننے، مردے دفنانے، پہیہ، انجن اور ٹریفک سگنل ایجاد کرنے کی عقل دی، اگر وہ یہ کہتا ہے کہ ہڈیاں ہی نہیں، میں فنگر پرنٹ بھی دوبارہ تخلیق کروں گا تو پھر بات ہے پریشانی کی۔ وہ تو آپ کو زندگی کے ہر ایک مرحلے میں ہدایات دیتا ہے۔

مجھے اس بات پر بہت حیرت ہوتی ہے کہ مذہبی اور ملحد ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں مگن رہتے ہیں۔ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر سنگ زنی میں مصروف۔ یہی حال ہمارے میڈیا پرسنز کا ہے۔ پچھلے دنوں ایک کذاب نے یہ غلغلہ کیا کہ تربوز انجکشن لگا کر سرخ کر کے بیچے جا رہے ہیں۔ سارے ماہرین اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر چکے کہ یہ عمل کاروباری طور پر سود مند یعنی feasibleہی نہیں تو کوئی کیوں ایسا کرے گا۔

کیمرے اور قلم والوں کو مگر اپنی پوسٹ بیچنا ہوتی ہے۔ اس کوشش میں عزت سادات اگر جاتی بھی رہے تو کیا حرج ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سموسہ، پیزا اور دوسری پراسسڈ فوڈ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں لیکن اگر آپ اس کی عادت بنا لیں تو۔ مسئلہ یہی ہے کہ لوگ ا ن کے عادی ہو جاتے ہیں اور مستقل طور پر کھانے لگتے ہیں۔

اگر آپ کا پیٹ نکلا ہوا نہیں۔ آپ جسمانی کام کرتے ہیں۔ بلڈ پریشر اور ذیا بیطس کے مریض نہیں تو کبھی کبھار کھانے سے ایسی کوئی بھی چیز آپ کے لیے ایٹم بم کا کردار قطعاً ادا نہیں کر سکتی۔ البتہ جب آپ بطور ایک ڈاکٹر اور یوٹیوبر کے یہ اعلان کرتے ہوئے سڑک پہ آئیں گے کہ سموسہ انسانی صحت پر ایک ایٹم بم جیسے اثرات رکھتا ہے تو یہ سودا بکے گا خوب۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ایٹم بم تو اپنے پیچھے کسی کو زندہ ہی نہیں چھوڑتا۔ سموسہ تو لوگ عشروں کھاتے رہتے ہیں۔ اب اگر کسی شخص کے جینز میں کینسر یا ہارٹ اٹیک لکھا ہوا ہے تو سموسمہ نہ کھانے سے وہ بچ تو نہیں سکتا۔ اسی طرح ایک مشہور صحافی نے یہ اعلان کیا تھا کہ جو شخص روزانہ چالیس گلاس پانی پیے ، وہ تیزی سے وزن کم کرے گا۔ سو فیصد جھوٹ!اپنی وڈیو بیچنے کا جنون۔

بات ہو رہی تھی ایجادات کی۔ ایٹم توڑ کے آپ بجلی بنا سکتے ہیں مگر شہر تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ تلوار یا بندوق سے رعایا کی حفاظت کی جاتی ہے مگر اس سے انہیں لوٹا اور دبایا بھی جا سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کیمرہ اور انٹرنیٹ بہت بڑی ایجادات ہیں، کیمرے میں مگر دماغ نہیں ہوتا۔ سب کچھ منحصر ہے اس دماغ پر جو کیمرے یا انٹرنیٹ کو استعمال کر رہا ہے۔ وہ شخص تعصبات کی زد میں ہے۔ وہ اپنے فرقے کا غلبہ چاہتا ہے یا وہ ملحد ہے اور خدا پر ایمان رکھنے والوں کی تضحیک چاہتا ہے تو وہ اپنا پورا زور اسی پہ لگائے گا۔ مذہبی لوگوں میں چونکہ بوکو حرام اور طالبان کثرت سے پائے جاتے ہیں، اس سے ان کا کام آسان ہو جاتا ہے۔