فنون لطیفہ اور لطیفے!

June 29, 2024

مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ’’فنون لطیفہ‘‘ کو فنون لطیفہ کیوں کہا جاتا ہے کیونکہ میرے ایک لطیفہ گو دوست کو فنون لطیفہ کا ذکر سنتے ہی لطیفے یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ فنون کے ساتھ ’’لطیفہ‘‘ کا لاحقہ یاسابقہ غالباً ان فنون کے لطیف ہونے سے لگایا جاتا ہے جبکہ میرے متذکرہ دوست کا کہنا ہے کہ اگر یہ توجیہہ درست ہے تو پھر صنف لطیف یعنی عورت کو بھی ’’صنف لطیفہ‘‘ کہنا چاہیے۔ تاہم میں اس دوست سے کسی بھی مسئلے پر زیادہ بحث نہیں کرتا کیونکہ پھر یہ بہت اوٹ پٹانگ باتیں شروع کرد یتا ہے۔ یہ وہی دوست ہے جس کے بارے میں میں نے ایک دفعہ آپ کوبتایا تھا کہ اس کے نزدیک شادی نہ کرنے کا صرف ایک ہی فائدہ ہے اور وہ یہ کہ انسان چارپائی کے دونوں طرف اتر سکتا ہے۔ اس کے کچھ ’’ملفوظات‘‘ اور بھی ہیں جو بیان کرنا آسان ہیں مگر شائع کرنا بہت مشکل۔ بہر حال جہاں تک فنون لطیفہ کا تعلق ہے خود مجھے بھی اتنے اعلیٰ فنون کے ساتھ ’’لطیفہ‘‘ کا لفظ کھٹکتا ہے۔ یہ لفظ میں نے بہت علمی اور دینی کتابوں میں بھی پڑھا تھا ان کتابوں کے مطالعہ کے دوران جب میری نظر ذیلی سرخی ’’لطیفہ‘‘ پر پڑتی تھی تو میں بہت خوش ہوتا تھا کیونکہ کسی ثقیل موضوع پر کچھ پڑھتے ہوئے اگر درمیان میں کسی لطیفے کے ذریعے کچھ ریلیف مل جائے تو میرے ایسے تن آسان قاری کیلئے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی لیکن میں اس وقت سخت پریشان ہوتا تھا جب بیان کئے گئے ’’لطیفہ‘‘ میں ہنسنے کی نہ صرف یہ کہ کوئی بات نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ لطیفہ اصل متن سے بھی اتنا زیادہ ثقیل اور بورنگ ہوتا تھا کہ مطالعے کی تھکن میںاضافہ ہو جاتا تھا یہ تو مجھے بہت دیر بعد پتہ چلا کہ یہاں ’’لطیفہ‘‘ سے مراد کوئی لطیف علمی نقطہ ہوتا ہے جو مصنف اپنے قاری کے ساتھ SHAREکرتا ہے۔

تمہید تھوڑی سی لمبی ہوگئی ہے بات دراصل یہ کرنا چاہتا تھا کہ جتنے بھی فنون لطیفہ ہیں مثلاً شاعری، مصوری، موسیقی، مجسمہ سازی یہ سب کے سب بہت نک چڑھے فنون ہیں۔ چنانچہ ان تک ہر کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی آپ اگر چاہیں تو ان فنون سے یکطرفہ طور پر عشق کر سکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کے باوجود وہ آپ پر مہربان ہوں اور آپ کے کاسہ میں شاعری ، موسیقی، مصوری اور مجسمہ سازی کے ہنر کی کچھ کھرچن ہی آ جائے۔مجھے اپنی طالب علمی کے زمانے ہی سے موسیقی اور مصوری سے بے حد لگائو تھا۔ موسیقی کی حد تک یہ شوق میں یوں پورا کرتا تھا کہ جہاں کوئی میز نظر آتی اپنے دونوں ہاتھوں سے اس پر کوئی دھن بجانے لگتا۔ یہی شوق میرے ماڈل ہائی اسکول ماڈل ٹائون کے اسکول بینڈ کا ایک رکن بننے کا باعث بھی بنا لیکن جب والد ماجد کو میرے اس ’’شوق فضول‘‘ کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے فوری طور پر اس سے الگ ہونے کا حکم دیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اس ٹیم میں وہ ڈھول بجانے پر مامور ہوں جو لشکر اسلام میں مجاہدوں کا خون گرم کرنے کیلئے بجایا جاتا تھا۔ اس پر والد ماجد نے فرمایا جب کسی لشکر اسلام میں شمولیت اختیار کرو اس وقت یہ فریضہ ضرور انجام دینا۔تاہم موسیقی سے میرا تعلق کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا مگر مصوری کی خواہش کبھی پوری نہ ہوسکی۔ میں یہ مصوری حاشا وکلا غالب کی طرح مہ وشوں کیلئے نہیں سیکھنا چاہتا تھا بلکہ اس کی وجہ وہ مرغوبیت تھی جو مصوروں کی تصویروں کی باریک بینی دیکھ کر مجھ پر طاری ہو تی تھی۔ میں ان کے کمال فن پر عش عش کر اٹھتا تھا مگر یہ کمال سیکھنے کی تمام تر کوشش کے باوجود مجھے حاصل نہیں ہوسکا۔ میں اگر عورت کی تصویر بناتا تھا تو لوگ اسے گھوڑا سمجھ بیٹھتے تھے اور میرے بنائے ہوئے گھوڑے پر انہیں عورت کا گمان گزرتا تھا چنانچہ بجائے داد کے الٹا مجھے جھاڑیں پڑتی تھیں۔ حالانکہ میں جس عورت کی تصویر بناتا تھا میرے ذہن میں اس کی تصویر گھوڑے جیسی ہی ہوتی تھی چنانچہ میری ذاتی خواہش بھی یہی ہوتی کہ اسے گھوڑا ہی سمجھا جائے مگر افسوس میری ’’علامت نگاری‘‘ کی کوئی قدر نہیں کی گئی بلکہ مجھے ایک افسوس یہ بھی ہے کہ میری ان تصویروں کو تجریدی مصوری کے کھاتے میں بھی نہیں ڈالا گیا ورنہ مصوری کے کسی فن شناس نقاد کی نظر کرم کے طفیل اگر زیادہ نہیں تو ایک آدھ ایوارڈ تو مل ہی سکتا تھا۔

میں نے آپ کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ فنون لطیفہ سے دیرینہ دلچسپی اور ان کے معیار کے حوالے سے اپنی رائے رکھنے کے باوجود میں کسی فن پارے کی خوبیاں یا خرابیاں بیان کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ میں ان میں ہونے والی کمی بیشی سے واقف تو ہوتا ہوں لیکن اس حوالے سے میرا بیان صرف تاثراتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ کام نقادوں کا ہے جو استدلال کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہیں چنانچہ جب کبھی میرے کسی دوست کی آرٹ گیلری کی نمائش ہوتی اور میں اس کے اصرار پر وہاں جاتا ہوں تو کسی نہ کسی ٹی وی چینل یا اخبار کا رپورٹر میرے تاثرات لینے کیلئے میرے پاس آتا ہے تو مارے خوف کے میری گھگھی بندھ جاتی ہے اور وہ میرے اس عمل کو علامتی اظہار قرار دے کر مجھ سے بہت متاثر ہوجاتا ہے اور پوچھتا ہے سر آپ کی تصویروں کی نمائش کب ہو رہی ہے؟۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)