4 جولائی کے عام انتخابات میں 15 پاکستانی امیدواروں کی کامیابی کا امکان

July 01, 2024

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برطانیہ میں2024کے انتخابات میں حصہ لینے والے برٹش پاکستانی/ کشمیری رہنماؤں میں کم از کم 15 رہنماؤں کی جیت کے امکانات ہیں، ان میں سے زیادہ تر امیدوار لیبر پارٹی کی جانب سے انتخابات میں امیدوار ہیں، لیبر پارٹی کو غزہ کے مسئلے کے علاوہ معیشت، خارجہ پالیسی، افراط زر اور جرائم کے مسئلے پر، جو برطانیہ میں رہنے والے کم وبیش 4 ملین مسلمانوں کے بڑے مسائل ہیں، آزاد امیدواروں سے چیلنج کا سامنا ہے۔ خصوصی رپورٹ کے مطابق جن امیدواروں کی جیت کےامکانات واضح ہیں، ان میں سے برمنگھم، ویسٹ مڈلینڈز سے 5 نشستوں، گریٹر مانچسٹر سے 2 نشستوں اور بیڈ فورڈ اور ڈیوزبری سے ایک ایک امیدوار کی جیت یقینی نظر آرہی ہے۔ اس دفعہ کے انتخابات کی دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو ملک کی بڑی پارٹیوں، جن میں کنزرویٹو پارٹی، لبرل ڈیموکریٹس، گرین پارٹی یا نئی ریفارم پارٹی یا جارج گیلووے کی قیادت میں قائم ہونے والی ورکرز پارٹی برطانیہ شامل ہے، سے کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہے بلکہ آزاد حیثیت سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کا تعلق برٹش پاکستانی/ کشمیری رہنماؤں سے ہے، جن کی اکثریت غزہ کے مسئلے پر انتخابی مہم چلا رہے اور گزشتہ سال 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی فلسطین پر اسرائیل کی جنگ کو انتخابی مہم کا محور بنائے ہوئے ہیں، اس کے بعد ان ممتاز برٹش پاکستانی/ کشمیری رہنماؤں کا نمبر ہے، جو نسبتاً محفوظ نشستوں کیلئے کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے جیت جانے یا بڑی پارٹیوں کے مقابلے میں بڑے امیدوار میں شمار کئے جانے کا امکان ہے۔ برمنگھم کے علاقے لیڈی ووڈ سے شبانہ محمود لیبر کی امیدوار ہیں، وہ انتہائی ممتاز برٹش پاکستانی سیاستداں ہیں، آکسفورڈ سے سند یافتہ شبانہ محمود نے پہلی مرتبہ 2010 میں لیبر کے ٹکٹ پر 28000 ووٹوں سےکامیابی سمیٹی تھی اور اس وقت سے مسلسل کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ انھیں لیبر پارٹی کے قائد سر کیئر اسٹارمر کے انتہائی قریبی تصور کیا جاتا ہے۔ انھوں نے گزشتہ انتخابات میں ڈالے جانے والے 80 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ چند ماہ قبل تک وہ لیبر پارٹی کی نیشنل کمپین کی کو آرڈی نیٹر تھیں، وہ لیبر پارٹی کا منشور تیار کرنے والیسر کیئر اسٹارمر کی ٹیم کا حصہ تھیں۔ اس دفعہ ان کے مقابلے میں کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے شاذنا مزمل، آزاد امیدوار احمد یعقوب، گرین پارٹی کے Zoe چیلنر، لبرل ڈیموکریٹسلیDargue اور ریفارم یوکے کےآئرن ہنری کھڑے ہیں۔برمنگھم کے حلقے پیری بار سے لیبر پارٹی کے خالد محمود سینئر ترین برٹش پاکستانی سیاستداں ہیں، وہ کم وبیش 24 سال قبل 2001 سے اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے، ان کے مقابلے میں لبرل ڈیموکریٹس کی صباح حامد، کنزرویٹو پارٹی کے گیری ہکٹن، کمیونسٹ پارٹی برطانیہ کے اینڈی شیفر، گرین پارٹی کے Kefentse Dennis، ریفارم یوکے کے اکشے کھٹن اور سوشلسٹ لیبر پارٹی کے شنگارا سنگھ کھڑے ہیں۔ خالد محمود کو سب سے زیادہ سخت مقابلہ آزاد امیدوار ایوب خان سے ہونے کا امکان ہے، جو کئی سال سے مقامی کونسلر اور انھوں نے چند ماہ قبل لبرل ڈیموکریٹس سے استعفیٰ دیا تھا۔ برمنگھم کے علاقے ہال گرین اور موسلے سے لیبر پارٹی کے امیدوار طاہر علی نے 2019 میں پہلی مرتبہ 28,000 سے زیادہ ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس مرتبہ انھیں آزاد امیدوار بیرسٹر محمد حفیظ، شکیل افسر، گرین پارٹی کے زین احمد، کنزرویٹو پارٹی کے ہنری مورس، لبرل ڈیموکریٹس کے Izzy Knowles اور آزاد امیدوار راجہ بابر سلیم کا سامنا کرنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ محمد حفیظ اور شکیل افسر آزاد ووٹ تقسیم کریں گے، یہ دونوں ایک ہی حلقے سے لڑ رہے ہیں۔ شکیل افسر نے اس سے قبل چند مقامی مسائل پر کمپین چلائی تھی، محمد حفیظ کرمنل لا کے مستند بیرسٹر ہیں اور وہ یوکے کرائم پراسیکیوشن سروس (CPS) کیلئے بھی کام کرچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حال تک وہ اور ان کی پوری فیملی لیبر پارٹی میں تھی اور لیبر پارٹی کے قائد اور متوقع وزیراعظم سرکیئر اسٹارمر بھی چند سال CPS میں کام کرچکے ہیں، حفیظ نے لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن کی حمایت میں لیبر پارٹی کو خیر باد کہہ دیاتھا، جیرمی کوربن نے ان کی توثیق کی تھی۔ اس نشست سے لیبر کے ٹکٹ پر ناز شاہ دوبارہ الیکشن لڑرہی ہیں، ناز شاہ کا شمار سب سے زیادہ حمایت رکھنے والےمسلمان اور پاکستان نژاد پارلیمنٹرین کے طور پرکیا جاتا ہے۔ انھوں نے 2015 میں جارج گیلووے کو شکست دی تھی۔ ناز شاہکو لبرل ڈیموکریٹس کے عماد احمد، کنزرویٹو پارٹی کے نائجل موکسن، گرین پارٹی کے خالد محمود، ریفارم یوکے کے جیمی ہنٹن وارڈلے، آزاد امیدوار عمر غفور، عقیل حسین اور محمد علی اسلام کا سامنا کرنا ہوگا۔ 21 سالہ علی اسلام چند ہفتے قبل لیبر پارٹی میں مقامی طورپر بغاوت کے بعد کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے 4000 سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے، ان کی انتخابی مہم کا محور غزہ ہے اور حلقے کے بہت سے علاقوں میں انھیں کافی سپورٹ حاصل ہے۔ بریڈ فورڈ ایسٹ سے لیبر پارٹی کے امیدوار عمران حسین کو ریفارم یوکے کے جیکب Anstey، کنزرویٹو پارٹی کے Aubrey Holt، لبرل ڈیموکریٹس کے رابرٹ OʼCarroll، سوشل ڈیموکرٹک پارٹی کے رچرڈ Riley، یارک شائر پارٹی کی لارا براس اور گرین پارٹی کی سیلیا ہکسن کا مقابلہ کرناہوگا۔ تاہم توقع کی جاتی ہے کہ آزاد امیدوار محمد رحمان، عامر رحمان اور طلعت سجاول کافی ووٹ حاصل کرلیں گے۔ عمران حسین پہلی مرتبہ 2015 میں منتخب ہوئے تھے، وہ اسی نشست سے دوبارہ امیدوار ہیں۔ بولٹن ساؤتھ اور واک ڈن کے علاقے سے لیبر پارٹی کی جانب سے یاسمین قریشی پہلی مرتبہ 2010 میں منتخب ہوئی تھیں، ان کے بڑے مدمقابل میں آزاد امیدوار پروفیسر رئیس ابراہام ہالی ویل کنزرویٹو پارٹی کے محمد افضل، لبرل ڈیموکریٹس کےGemma-Jane Bowker، ورکرز پارٹی کے جیک خاں، گرین پارٹی کے فلپ کوچیٹی اور ریفارم یوکے کی جولی پیٹی سن شامل ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے 7000 ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2019 میں کوونٹری ساؤتھ سے سرگرم کارکن اور کمپینر لیبر پارٹی کی زارا شاہ نے صرف 401 ووٹ سے کامیابی حاصل کی تھی، وہ دوبارہ لیبر کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کررہی ہیں، ان کے بڑے مد مقابل میں ریفارم یوکے کے کرس بیڈن، کنزرویٹو پارٹی کی Mattie Heaven، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے Alastair Mellon، آزاد امیدوار جوشوا مورلینڈ، نیکو اومیلانا، گرین پارٹی کی این پیٹرسن، لبرل ڈیموکریٹس کے اسٹیفن رچمنڈ اور ورکرز پارٹی برطانیہ کے محمد سید شامل ہیں۔ Gillingham اور رین ہیم سے کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار رحمان چشتی غالباً فی الوقت ٹوری پارٹی میں سب سے زیادہ سینئر مسلمان پارلیمنٹرین ہیں، وہ پہلی مرتبہ 2010 میں منتخب ہوئے تھے اور اس وقت سے اب تک مستقل منتخب ہوتے چلے آئے ہیں، ان کا تعلق مظفرآباد آزاد جموں و کشمیر سے ہے، وہ ایک امام کے صاحبزادے ہیں اور بے نظیر بھٹو شہید کے مشیر بھی رہے ہیں، اس مرتبہ ان کو لیبر پارٹی کی نوشابہ خان، لبرل ڈیموکریٹس اسٹوارٹ باؤرن، گرین پارٹی کی کیٹ بیل مونٹے، کرسچئن پیپلز الائنس کے راجر پی کاک، ریفارم یوکے کے رضوی رؤف، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے پیٹر وہیلر اور آزاد امیدوار پیٹر کک کا سامنا کرنا ہوگا۔ لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے لیبر پارٹی روزن ایلن خاں حصہ لے رہی ہیں، وہ نصف پاکستانی اور نصف پولش یعنی پولینڈ کی ہیں، وہ سب سے پہلے لندن کے میئر صادق خان کی جانب سے اپنی نشست سے استعفیٰ کے بعد ایک ضمنی انتخاب میں 2016 میں منتخب ہوئی تھیں، کنزرویٹو پارٹی کے Ethan Brooks، لبرل ڈیموکریٹس کے جوڈتھ ٹراؤنسن، ورکرز پارٹی برطانیہ کے طارق حسین، Rejoin EU کے جاس الدوق، گرین پارٹی کے نک ہمبر اسٹون، ریفارم یوکے کے اینڈریو پرائس اور آزاد امیدوار ڈیونڈر جیمز ان کے مد مقابل ہوں گے۔ مانچسٹر کے علاقے روشولم سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر افضل خاں امیدوار ہیں، وہ سب سے پہلے2017 میں مانچسٹر گورٹن کےایک ضمنی انتخاب میں جیتے تھے ،2019 کے عام انتخابات میں وہ 30,000 ووٹ کی اکثریت سے جیتے تھے، سابق کونسلر یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور لارڈ میئر دوبارہ نئی تخلیق کردہ نشست مانچسٹر روشولم سے دوبارہ امیدوار ہیں، ان کے مدمقابل کنزرویٹو پارٹی کی الیگزنڈر مرسانو، گرین پارٹی کی Thirza Asanga-Rae، ورکرز پارٹی برطانیہ کے محمد بلال، کمیونسٹ لیگ کے پیٹر کلیفورڈ، ریفارم یوکے کے Joel McGuigan اور آزاد امیدوار فراز بھٹی ہوں گے۔ میریڈن اور سولی ہل ایسٹ سے ثاقب بھٹی کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار ہیں، وہ سب سے پہلے 2019 میں لیڈ کے حلقے سے ٹوری پارٹی کی پکی سیٹ پر 23000 ووٹ لے کر جیتے تھے، اب ان کا مقابلہ لیبر پارٹی کی سارہ ایلن، ریفارم یوکے کے مالکم Sedgley، گرین پارٹی کے شیش شیشا بھاٹر اور لبرل ڈیموکریٹس کے ورک سے ہوگا۔ سسیکس کے حلقے ویلڈ سے نصرت غنی کنزرویٹو پارٹی کی امیدوار ہیں، 2015 میں وہ ٹوری کی پکی سیٹ سے پہلی مرتبہ منتخب ہوئی تھیں۔ ٹوری حکومت کے گزشتہ 3 ادوار کے دوران انھوں نے ٹوری کابینہ میں مختلف حیثیتوں سے خدمات انجام دی ہیں۔ بیڈ فورڈ سے محمد یاسین پہلی مرتبہ اس سیٹ پر2017لیبر کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، اگرچہ 2019 میں بھی وہ اسی نشست سے دوبارہ جیت گئے تھے لیکن صرف 146 ووٹ سے۔ اس مرتبہ دوبارہ اسی نشست پر ان کا مقابلہ ورکرز پارٹی کے پرنس صادق چوہدری، کنزرویٹو پارٹی کے پنڈر چوہان، گرین پارٹی کے بین فولے، آزاد امیدوار طارق جاوید، ریفارم پارٹی کی میٹ لانسلے اور لبرل ڈیموکریٹس کے ہنر وین سے ہوگا۔ ڈیوس بری اور باٹلے سے حیدر اقبال لیبر پارٹی کیامیدوار ہیں، ان کے والد پاکستانی اور والدہ انگریز ہیں، وہ پہلی مرتبہ انتخابی اکھاڑے میں اتریہیں اور لیبر پارٹی کے قائد سرکیئر اسٹارمر کی مضبوط اتحادی تصور کی جاتی ہیں، آزاد امیدوار اقبال حسین، لبرل ڈیموکریٹس کے جون ایڈورڈ روسنگٹن، کنزرویٹو پارٹی کے للیت رگھوناتھ ان کے مد مقابل ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اسکاٹ لینڈ کی 57 نشستیں ہیں، اسکاٹ لینڈ کے حلقے Airdrie اور شاٹس سے اسکاٹش نیشنل پارٹی نے اسکاٹ پاکستانی انعم قیصر کو دوبارہ ٹکٹ دیا ہے، انعم قیصر 3 سال قبل پہلی مرتبہ اس نشست سے جیتی تھیں، ان کے مدمقابل کنزرویٹو پارٹی کی الیگزنڈر ہرڈمین، لیبر کی کینتھ اسیونسن، لبرل ڈیموکریٹس کی لیوس Younie، البا پارٹی کے جوش رابرٹسن، ریفارم یوکے کے ڈیوڈ ہال اور برٹش یونینسٹ پارٹی کے جون لیکی ہوں گے۔ گلاسگو ساؤتھ ویسٹ کے حلقے سے ڈاکٹر زبیر احمد لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے ہیں، یہ وہ سیٹ ہے، جس پر 2017 میں پارٹی صرف 60 ووٹ سے جیتی تھی۔ لیبر کو اس حلقے سے جیتنے کیلئے کم از کم 6.43 فیصد ووٹ کی ضرورت ہوگی۔ پارٹی کو دارالعوام میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے جیتنے کیلئے 126 نشستوں میں سے ایک نشست یہ بھی ہے۔ 42 سالہ ڈاکٹر زبیر احمد گلاسگو میں دل کی تبدیلی اور امراض قلب کے معالج ہیں، ویلنگٹن برو اور رشڈن سے بنیامن حبیب، جو بن حبیب کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، دائیں بازو کی ریفارم یوکے کے بہت مضبوط امیدوار ہیں۔ 59 سالہ تاجر بن حبیب کراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد پاکستانی اور والدہ انگریز ہیں، بن حبیب ریفارم یوکے کے ڈپٹی قائد ہیں، اس سے قبل وہ ٹوری پارٹی کے ڈونر تھے، کروڑ پتی بن حبیب بریگزٹ کے حامی تھے اور نائجل فراج کے کٹر حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے بن حبیب 2019 میں یورپی پارلیمنٹ کے انتخاب میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔لندن کے علاقے ہولبرن اور سینٹ پنکراز سے متوقع وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر کو کنزرویٹو پارٹی کی معروف برٹش پاکستانی وکیل مہرین ملک کا سامنا ہے، اس کے علاوہ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار اینڈریو فین سٹین، ویس اسلام، سنتھل کمار، یوکے آئی پی کے جون Poynton، ریفارم یوکے کے ڈیوڈ رابرٹس، سوشلسٹ ایکویلٹی کے ٹام اسکرپس، آزاد امیدوار بوبی اسمتھ او ر گرین پارٹی کے ڈیوڈ اسٹینسل بھی ہوں گے۔ چنگ فورڈ اور ووڈ فورڈ گرین سے پاکستان نژاد فائزہ شاہین کنزرویٹو پارٹی کے سابق قائد سر ایان ڈنکن سمتھکا مقابلہ کریں گی، 2019 میں صرف 1,262 ووٹ سے اسمتھ سے ہار گئی تھیں، انھوں نے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر 22,219 ووٹ حاصل کئے تھے۔ لندن اکنامکس اسکول کی تعلیم یافتہ خاتون نے لیبر پارٹی کی جانب سے ایک معروف امریکی براڈ کاسٹر کی اسرائیل کے بارے میں ٹوئٹ لائیک کرنے پر این ای سی مسترد کئے جانے کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیبر پارٹی کی شمع ٹیٹلر، لبرل ڈیموکریٹس کے جوش ہاڈلے، گرین پارٹی کے کرس براڈی اور ریفارم یوکے کے Paul Luggeri بھی اسی حلقے سے قسمت آزمائی کررہے ہیں۔