دواؤں کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ

July 23, 2024

صحت کے شعبے میں اس وقت جہاں سندھ میں انقلاب برپا ہے، وہاں مجموعی طور پر پاکستان میں صحت کا شعبہ زوال کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت پاکستان کا جعلی ادویات پر نظر رکھنے، دواسازی کی صنعت کیلئے ایک جامع پالیسی تیار کرنے اور صحت کے شعبے کیلئےمناسب بجٹ مختص کرنے میں بہت اہم کردار ہے۔ اس وقت ایک عام شہری بہت تکلیف میں ہے، حکومتی غیر یقینی پالیسیوں کی وجہ سے آج انسولین کی کمی کا سامنا ہے، پاکستان میں دوا سازی کی صنعت نے ہمیشہ ملک میں بحران کے دوران کام کیا ہے، جنگ ہو یا سیلاب ، دوا ساز کمپنیاں اپنا کام کرتی رہتی ہیں مگر اس وقت سیاسی غیر یقینی صورتحال،تقریباً 20فیصد افراط زر اور روپے کی قدر میں کمی نے دواسازی کے شعبے کو بھی شدید متاثر کیا۔ ڈالر بحران جہاں ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے وہاں ادویات سازی کو بھی شدید متاثر کررہا ہے۔ ہمیں خام مال کا تقریباً 90فیصد درآمد کرنا پڑتا ہے لیکن چونکہ قیمتیں ریگولیٹ ہوتی ہیں، کمپنیاں انہیں منتقل کرنے سے قاصر ہیں۔جب قیمت زیادہ ہو تو کمپنیاں مصنوعات بنانا بند کر دیتی ہیں۔ایک بہت بڑا مسئلہ اسمگلنگ کا ہے، پاکستان میں قانونی ادویات کی جگہ جعلی اور مہنگی اسمگل شدہ ادویات مارکیٹ میں عام ہیں۔ فارما انڈسٹری نےضروری ادویات کی قیمتیں بڑھانے کیلئے کوششیں ایک بار پھر شروع کردی ہیں جہاں پیداوار کی لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کمپنیوں کو اب ادویات بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔دل کے مریض رل گئے ہیں۔ دل کے مریضوں کی اہم دوائیں بہت مہنگی اور ناپیدہوگئی ہیں۔ٹی بی، کینسر اور زندگی بچانے کی دیگر اہم ادویات کی بھی مارکیٹ میں شدید کمی ہے۔پاکستان میں صحت کے بحران کو حل کرنے کیلئے ڈی آر اے پی ، حکومت ، ڈاکٹروں کی انجمن اور فارما کمپنیوں کے مابین باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔حکومت ایسے مسائل کو حل کرنے میں لچک پیدا کرے جو مریضوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔دوسری طرف پاکستانی معاشرے میںایک بڑا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے وہ یہ کہ ڈاکٹر حضرات مخصوص کمپنیوں کی ادویات ہی مریضوں کو لکھ کر دیتے ہیں۔ مریض کو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس دوا کے علاوہ کوئی دوا نہیں خریدنی۔ اس مسئلے کاحل بھی حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔ فارما کمپنیوں پر ڈاکٹروں کو غیر ملکی دوروں پر بھیجنے پر سخت سزائیں ہونی چاہئیں۔ ایسے ڈاکٹر جو فارما کمپنیوں سے عمرے اور بیرون ملک دوروں کے ٹکٹ لیتے ہیں اس عمل کو روکنےکیلئے بھی حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ بہت بڑی کمپنیاں بھی اس طرح کی پریکٹس میں ملوث رہی ہیں۔ایسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف حکومت کو قیمتوں پر فی الفور مزید کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میںبھارت سے ہمیں دوائوں کی درآمدکیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ تاکہ بارڈر پار سے سستی ادویات عوام کو مل سکیں۔ پاکستان کی نسبت وہاں ادویات کی قیمتیں کم ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں کو ہمیں ضرورمراعات دینی ہوں گی تاکہ ریسرچ اور نئی ادویات مارکیٹ میں آئیں۔ مینوفیکچرنگ کاعمل 95 فیصد مقامی طور پر ہو رہا ہے لیکن پھر بھی مقامی کمپنیاں سائز کم کر رہی ہیں کیونکہ وہ قیمت کے ضابطے کی وجہ سے اپنی صلاحیت پر کام نہیں کر پا رہیں۔نہ یہ کمپنیاں کسی ریسرچ پر کام کررہی ہیں۔اگر ہم آج کام کرنا شروع کرتے ہیں، تو 10 سال میں ایک بنیادی جزو، خام مال پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔آپ کو اس میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن بجلی اور گیس جیسی ہر چیز کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود آپ قیمت نہیں دیتے،سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟ہمیں ریجنٹس اور کئی دوسری چیزوں کی ضرورت ہےجبکہ درآمد روک دی گئی ہے۔جس کھیپ پر 20 ملین روپے لاگت آتی تھی وہ 40 ملین روپے وصول کی جا رہی ہے۔جس سے معیار پر سمجھوتہ ہورہاہے۔مختصراََ اس وقت ادویہ سازی کی صنعت اور مریض دونوںشدید مسائل کا شکار ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر اس باب میں ٹھوس پالیسی وضع کی جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)