عصری شعور کی جلوہ آرائی

July 29, 2016

برصغیر کے مسلمان متعدد بار آشوب ہائے بلاخیز سے گزرتے آئے ہیں جن کے اثرات دور دور تک پہنچے ہیں۔ ایک اس وقت جب کچھ انگریز مغل بادشاہ شاہجہاں کے دربار میں تاجروں کی حیثیت سے پیش ہوئے اور ہندوستان کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر انہوں نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کیے اور سازشوں کے ذریعے طاقت کے مراکز میں داخل ہوتے گئے۔ میسور میں اُن کا ٹیپو سلطان کے ساتھ سخت مقابلہ ہوا، مگر انہوں نے اِس کی فوج میں میر صادق تلاش کر لیا اور حیدرآباد دکن کے حکمران کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ انہیں بنگال میں بھی میر جعفر دستیاب ہو گیا جس نے انگریزوں کی فتح یابی کے راستے کھول دیے۔ دہلی میں مغلیہ حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر قلعہ معلی تک محدود ہو کے رہ گیا تھا۔ انگریزوں کو جوں جوں کامیابی ہوتی گئی، وہ مقامی رسم و رواج اور مذہبی عناصر کو پامال کرتے گئے جس کے نتیجے میں بغاوت نے سر اُٹھایا۔ اِس کی قیادت بہادر شاہ ظفر کر رہے تھے اور اِس میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔ اِس بغاوت میں سینکڑوں کی تعداد میں انگریز فوجی مارے گئے، مگر اُن کی پشت پر برطانیہ کی فوجی طاقت تھی جس کے آگے آزادی کے متوالے ٹھہر نہ سکے اور برطانیہ نے دیہی ریاستوں کے سوا پورے بھارت پر قبضہ کر لیا۔ اِس کے بعد قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوا، وہ تاریخ میں محفوظ ہے اور آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ لاتعداد ہندوستانی بڑی بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ گلی گلی اور کوچے کوچے مقتل آباد ہو گئے اور لاشیں کئی کئی روز درختوں سے لٹکائی جاتی رہیں۔ علمائے کرام جو ایک مجاہدانہ کردار ادا کر رہے تھے، انہیں پھانسیاں دی گئیں یا کالے پانی بھیج دیا گیا۔ عفت مآب خواتین جن کو شعاعِ آفتاب نے کم ہی دیکھا تھا، بازاروں میں گھسیٹی گئیں۔ شرفا جو ایک خوشحال اور باعزت زندگی گزارتے چلے آ رہے تھے اُن کو فاقوں کی نوبت پہنچ گئی۔
اِس عہد میں تین بڑے شاعر ذوقؔ، مومنؔ اور غالبؔ جو حساس دل اور نگاہ رکھتے تھے، انہوں نے اپنے اشعار میں اِس آشوب کے دردناک مناظر پیش کیے اور ان کی تحریروں میں احساس کی چنگاریاں لو دیتی ہیں۔ انہی کے آخری دنوں میں ایک نوجوان شاعر ایک جداگانہ اسلوبِ اظہار کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کا نام مرزا داغؔ دہلوی تھا۔ اس نوجوان نے حضرت ذوقؔ سے بھی اکتساب کیا اور حضرت مومنؔ سے بھی اور آگے چل کر غالبؔ کی زمین میں بھی غزلیں کہیں، مگر اس کے ہاں روزمرہ اور محاورے کی چاشنی اور زبان و بیان کی نغمگی لطف دیتی ہے۔
داغ کا بے ساختہ پن بعض مقامات پر سہل ممتنع اور ضرب المثل کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔ اِس سے بھی اہم چیز وہ کرب، وہ سوز اور وہ گہرا عصری شعور ہے جو 1857ء کے اندوہناک آشوب سے پیدا ہوا ۔ یہی وہ سرمایہ ہے جو آج بھی عالمِ اضطراب میں ہمارے اندر ایک توانائی، تازگی اور دوراندیشی کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ آج ہمارا اضطراب وسیع تر اور نہایت گہرا ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور اعلیٰ روایات کے حامل ملک ایک خوں آشام آشوب سے گزرے ہیں۔ شام، عراق، ترکی، لیبیا اور پورا شرقِ وسطیٰ شدید خلفشار کا شکار ہے اور امریکہ اور یورپ بھی انتہا پسندی اور تشدد کے نرغے میں دکھائی دیتے ہیں۔ اِن خطرات سے نمٹنے کے لیے شاعری ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہمارے شاعرِ مشرق جن کو ہم دیدہ ور سمجھتے ہیں اور اُن کے کلام سے عشق کی تپش حاصل کرتے ہیں، انہوں نے مرزا داغ دہلوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور اُن کے بہت سارے اوصاف اپنے اندر جذب کیے تھے۔
گزشتہ دنوں داغؔ دہلوی کا شعری مجموعہ ’آفتابِ داغ‘ مجھے اشرف جاوید صاحب نے مطالعے کے لیے دیا جو انہوں نے گہری تحقیق اور حواشی کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ اُن کا دیباچہ چشم کشا ہے اور داغؔ کی عظمتِ فکر اور ندرتِ احساس پر تخلیقی انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ آفتابِ داغ جمہوری پبلی کیشنز نے بڑے قرینے سے شائع کی ہے۔ کتاب کے مرتب جناب اشرف جاوید نے لکھا ہے کہ داغؔ جیسا زمینی شخصیتوں سے جڑا ہوا شاعر اپنے نواح میں آگ بھی دیکھتا اور دھواں بھی دیکھتا ہے اور صبر بھی، قلم بھی دیکھتا ہے اور مظلومیت بھی اور بدلے منظروں کا یہ ستم اور حالات کا یہ الم، اِس کے قلم کو اظہار کی ارزانی ودیعت کرتا چلا جاتا ہے۔ ذات سے کائنات کی طرف یہ سفر شعوری بھی ہے اور بے ساختہ بھی۔ داغؔ نے خود کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا اور پھر کائنات کا انہدام دیکھا۔ سو اُن دکھوں کا، ان غموں کا، ان المیوں کا، ان سانحوں کا اور اِس خستگی اور شکستگی کا اظہار میں ڈھل جانا ایک بے ساختہ اور قدرتی عمل ہے۔
میرے مطالعے کے دوران جن اشعار نے میرا دامنِ دل بار بار کھینچا، اُن میں سے چند اپنے قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
تیرے قدم سے عرش بنے دوشِ نقش پا
صلِ علیٰ کہے لب خاموشِ نقش پا
کس طرح سے اِس کے دل میں گھر کروں
جب زمین قائم نہ ہو، بنیاد کیا؟
حرص دامن گیرِ دنیا مالِ دنیا بے ثبات
جس قدر حاصل کیا، اِس کے سوا جاتا رہا
سر اُڑاتے ہیں وہ تلواروں سے
کوئی کہتا نہیں سرکار! یہ کیا؟
ہو گئی بارِ گراں بندہ نوازی تیری
تو نہ کرتا اگر احساں، تو احسان ہوتا
اِس میں بھی کوئی بھید ہے، ہم جانتے ہیں
کہتے ہیں ایک ایک سے کیوں دل کے راز ہم
ضد ہر اِک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
یہ نااُمیدِ زیست، وہ مشتاقِ رقص ہے
بسمل کی یاس دیکھیے‘ قاتل کی آرزو
تو نے ایسے بگاڑ ڈالے ہیں
ایک کی ایک سے نہیں بنتی
شب کو جاگیں بزم میں وہ دن کو سوئیں
رات کا دن اور دن کی رات ہے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
کیا کہوں، کیونکر کہوں، کس سے کہوں، کیا کیا کہوں
آپ کی کیا بات ہے، جو بات سے سنجیدہ ہے
کام دنیا میں نکلتا نہیں آسانی سے
جس کو ہم سہل سمجھ لیتے ہیں، مشکل ہے وہی
کیا ہمارا عذر ٹھہرا، کیا سنا عذرِ گناہ؟
وائے حسرت! ایک ہی دن میں قیامت ہو گئی
زمانے کے چلن سیکھے ہیں تو نے
کسی کا دوست ہے، دشمن کسی کا
داغؔ دلی تھی کسی وقت میں یا جنت تھی
سینکڑوں گھر تھے وہاں رشکِ ارم ایک نہ دو
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اِس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی



.