ٹرمپ بمقابلہ خان

August 06, 2016

گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ اور کیپٹن ہمایوں(جو 2004 میںعراق میں سڑک کے کنارے نصب بم پھٹنے سے ہلاک ہوگئے تھے ) کے والدین کے درمیان تیز وتند جملوں کے تبادلے نے نہ صرف امریکی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں اور اُن کے حامیوں کے درمیان فرق کو واضح کردیا بلکہ اس احساس کو اجاگرکردیا کہ وہ امریکہ کو کیسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس موضوع پر نامور کالم نگارمحترم ایاز امیر لکھتے ہیں۔۔۔’’وطن کی خاطر ہلاک ہونے والے ایک فوجی کے والد ، خضر خان کا دکھ قابل ِفہم ، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اُن کے غصے کا رخ ریپبلکن پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار، ٹرمپ، کی طرف کیوں ہے ؟ ٹرمپ کا عراق جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘
تاہم ایسا لگتا ہے کہ ایا زامیر صاحب نے معاملے کو قدرے گڈمڈ کردیا۔ خضر خان کی تقریر عراق جنگ ، اس کے جواز یا جنون کے بارے میں نہیں تھی، اور نہ ہی ٹرمپ کابے سروپا رد ِعمل اسے عراق جنگ تک محدود کررہا تھا۔ مسٹر خان کی تقریر ہر امریکی شہری کے آئینی حقوق ، عزت اور وقار ، جس کا امریکی آئین وعدہ کرتا ہے ، کا احاطہ کرتے ہوئے باور کرارہی تھی کہ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کس طرح ان اقدار کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اُن کی تقریر نے ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن کو اجاگر کردیا، اور غزالہ خان کے کرب کے اظہار پر ٹرمپ کے توہین آمیز رد ِعمل نے عوام پر اُن کی بے حسی بھی عیاں کردی۔
خضر خان اپنے بیٹے کی ہلاکت پر امریکہ کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہرا رہے تھے ۔ اُن کے بیٹے نے اپنی مرضی سے فوج میں جانے کا فیصلہ کیا تھا، اور فوجیں جنگ لڑنے کے لئے ہی تیار کی جاتی ہیں۔ فوج میں بھرتی ہونے والے اس بات کو سمجھتے ہیں، وہ اپنے فرض کی انجام دہی کے دوران جان بھی دے دیتے ہیں۔ جب کسی فوجی کو ڈیوٹی پر طلب کیا جاتا ہے تو اُسے جنگ کے جواز پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی کہ کیا یہ درست ہے یا غلط۔ اور اگر تاریخ بعد میں فیصلہ کردے کہ لڑی جانے والی جنگ کا جواز غلط تھا، تو بھی اس میں دی جانے والی قربانیوں کی اہمیت کم نہیںہوتی۔ شہدا کو تمام دنیا سلام کرتی ہے کیوں کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے وطن کی خاطر اپنی جان قربان کرتے ہیں۔ پاکستان نے بہت سی جنگیں لڑیں، اور ہم بحث کرسکتے ہیں کہ کیا اُن کے پیچھے معقول پالیسی تھی یا نہیں۔ مثال کے طور پر کارگل مہم ایک خوفناک حماقت تھی، لیکن اس سے اس جنگ میں دی جانے والی قربانیوں پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ شہدا نے پاکستان کا تحفظ کرنے یا اس کے مفادات( جو بھی تھے ) کی خاطر برف پوش پہاڑوں پر جان دی تھی۔ فرض کریں ہم ایک رہنما جو اعلیٰ ترین منصب کے حصول کے لئے کوشش کررہا ہے ، کے بیانیے کی حمایت شروع کردیں کہ صرف پنجابی سنی ہی سچے محب وطن اور حقیقی شہری ہیںتو دیگر صوبوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کیا محسوس کریں گے، خاص طور پر جب اُن کے عزیز و اقارب پاکستان کے لئے اپنی جانیں قربان کر چکے ہوں؟
ہمایوں خان کے والدین امریکہ سے عراق جنگ شروع کرنے پر ناراض نہیں ہیں جو بہت سے حلقوں کے نزدیک نفرت انگیز جنگ تھی، وہ صرف اس بات پر ناراض ہیں کہ جب بھی ٹرمپ تمام مسلمانوں کو دہشت گرد اور تمام مہاجرین کوگھٹیا قرار دیتے ہیں تو وہ اُن کے بیٹے، جو ایک امریکی تھا، کی قربانی کی توہین کررہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے سینے پر گولڈ اسٹاروالد(ایسے والدین جن کے بیٹے امریکہ کی خاطر جنگ میں ہلاک ہوچکے ہوں)کا میڈل سجائے ٹرمپ کی تنگ نظری اور تارکین ِوطن سے نفرت پر سوال اٹھارہے تھے کہ اُن کے مسلمان بیٹے نے امریکہ کے لئے اُن انتہا پسندوں کے خلاف لڑتے ہوئے جان دی تھی جن کا نام لے کر ٹرمپ دیگر مسلمانوں، جیسا کہ خان، کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران نمایاں ہونے والی بحث پاکستانی امریکیوں اور دنیا بھر کے تارکین ِوطن سے متعلق ہے۔ہو سکتا ہے کہ پاکستانی نژاد خضر خان کی طرف سے ٹرمپ کی نسل پرستی کو چیلنج کرنے سے پاکستانیوں اور مسلمان تارکین ِوطن کے خلاف تعصب میں کمی آجائے۔ اُنھوں نے جس طرح ٹرمپ کو مخاطب کیا، کوئی پاکستانی رہنما ایسا نہیں کرسکتا۔ اُن کا پیغام امریکہ میں ان کے غیر ملکی لہجے، برائون جلد اور سینے پر گولڈا سٹار ہونے کی وجہ سے بہت نمایاں سنائی دیا۔ اُنھوں نے اس مغالطے، جس کی نمائندگی ٹرمپ کررہے ہیں، کی نفی کہ دنیامیں اچھائی اور برائی کے درمیان تفریق کی طرح ’’امریکیوں اور دیگر اقوام‘‘ کے درمیان بھی دوٹوک تفریق پائی جاتی ہے ۔ جب تھامس فلپ اونیل نے 1935 میں کہا کہ ’’تمام سیاست مقامی ہوتی ہے ‘‘ ، تو اُن کا موقف درست تھا، لیکن آج 2016 میں سیاست بیک وقت مقامی بھی ہے اور گلوبل بھی۔آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں رہنما عالمی سامعین سے مخاطب ہوتے ہیں۔ جب کینیڈا کے وزیر ِ اعظم جسٹن ٹروڈومساوات اورہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو اُنہیں امید ہوتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک اچھا تاثر چھوڑ رہے ہیں۔ اسی طرح جب ٹرمپ اور اسی طرح کے دیگر رہنما اپنے مخصوص مقاصد کے لئے نفرت اور تعصب کے بیانیے کو ارزاں کرتے ہیں تو یہ رویہ مقامی نہیں رہتابلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے ۔ ہم نے موجودہ دنیا میں نظریاتی تفریق کی لکیر گہری ہوتی دیکھی، جیسا کہ سرمایہ داری بمقابل اشتراکیت۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی نظریاتی سیاست کا عہد تمام ہواتو انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوگیا۔ اس نے قومی سرحدوں کو دھندلانا شروع کردیا۔ آج کسی ریاست کو کسی دوسری ریاست سے خطرہ نہیں، بلکہ غیر ریاستی عناصر سے ہے ۔ اور وہ دنیا جو دیگر ریاستوں سے اٹھنے والے خطرے کو بھانپنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا اسٹرکچر رکھتی تھی، اس نئے خطرے کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس نئی دنیا میں ، جہاں ریاستوں کی سرحدیں اگر غیر اہم نہیں ، تو بھی نرم ہوتی جارہی ہیں، ریاستوں کے اندر قومیتوں کو تقسیم کرنے والی دیواریں منہدم ہورہی ہیں، بیم و رجا کی آمیزش لئے تصورات جغرافیائی سرحدوںکے آر پار سرایت کر رہے ہیںتو قومیت کی بنیاد پر طے پانے والی شناختوں اورنسلی اور مسلکی تفاوت کی لکیر پر دوست اور دشمن کاتعین کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ اس نئی اور پیچیدہ دنیا کو درپیش چیلنجز بھی پیچیدہ ہیں، چنانچہ اپنے دروازے بند کرنا، دیواریں بلند کرنا اور مشکوک قومیتوں کو خود سے الگ رکھنے جیسا قدیم اور دقیانوسی طریق کار آج کام نہیں دے گا۔
تبدیلی ہمیشہ لوگوں کو آرام دہ گوشوں سے نکل آنے اور مزاحمت کا سامنا کرنے پر اکساتی ہے ، تاہم آج کل ہمارے ارد گرد تبدیلی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اسے دیکھ کر خوف آتا ہے کہ یہ ہماری ثقافت، ہمارے معاشروں اور ہماری دنیا، جسے ہم جانتے ہیں، کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دے گی۔ یہ مشرق و مغرب میں ایک جیسا خوف پیدا کررہی ہے ۔ مزید یہ کہ ایسی کوئی تھیوری یا بیانیہ بھی موجود نہیں جو اس تشویش کا تدارک کرسکے یا لوگوں سے ایک مختلف دنیا میں بہتر اور پرامن زندگی کا وعدہ کرسکے ۔ خوف اور ژولیدہ فکری کے اس عالم میں لوگ اپنا تحفظ کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر تنگ نظری، عدم برداشت اور انتہا پسندی کا رخ کررہے ہیں۔ ہم نے مسلمان نوجوانوں کومقامی یا عالمی دہشت گرد گروہوں ، جیسا کہ طالبان، القاعدہ اور داعش کے پھیلائے ہوئے انتہا پسندانہ نظریات کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اسی طرح ہم یورپ میں انتہائی نظریات رکھنے والے قوم پرستوں کو بھی طاقت اور مقبولیت حاصل کرتے دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ابھی حال ہی میں بریگزٹ دیکھی ، اور اب ہم امریکہ میں ٹرمپ کے ہیولے گردش کرتے دیکھ رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی پیچیدگی کے مقابلے میں کسی متبادل بیانیے کی غیر موجودگی میں انتہا پسندی، تعصب، جہالت اور عدم برداشت ہی فروغ پائیں گے۔ ایسا نہیں کہ انسانی تاریخ کے کسی بھی دور میں انسانی حقوق کی حدود میں اضافہ آسانی سے، بلا جنگ وجدل، ہوتا رہا ہے ۔ چاہے یہ سماجی حقوق کے لئے امریکہ میں ہونے والی خانہ جنگی ہو، جمہوریت اور شخصی آزادیوں کے لئے یورپ میں چلنے والی تحریک ہو، کٹھن جدوجہد کے بغیر کسی تحریک کی کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی۔ گزشتہ عشرے سے پریشان کن چیز البتہ یہ ہے کہ خوف اور نفرت پر پروان چڑھنے والی رجعت پسندی کی قوتیں طاقتور ہوتی جارہی ہیں، اور معاشرے کے ناراض اور غیر مطمئن حلقوں کے سامنے یہی قوتیں تبدیلی کی نقیب بن کر آرہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسی رجعت پسندی کی پیداوار ہیں۔ ابہام کا شکار دنیا کے سامنے خود کو دوٹوک حقیقت کا علم بردار بنا کر پیش کرتے ہوئے وہ بتارہے ہیں کہ جن افراد یا گروہوں کو آپ ناپسند کرتے ہیں، ان پر سختی کرنا درست ہے ،اور یہی رویہ ایمانداری ہے۔
دوسری طرف خضر خان کے طاقتور الفاظ مساوات اور آزادی کے اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کی کہانی کا کردار اُس کا مسلمان بیٹا ہے جس نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اپنی جان قربان کی ہے ۔ اور یہی اس دنیا کی وہ پیچیدہ حقیقت ہے جسے سمجھنے سے ٹرمپ قاصر ہیں۔ وہ دوٹوک بیانیے سے اس کی نفی کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن ایسا کرتے ہوئے اُن کا اپنا کھوکھلا پن عیاں ہورہا ہے ۔ اس نقصان کا تدارک کرنے کے لئے وہ ’’امریکہ کو ایک بار پھر عظیم ملک بنائیں گے‘‘ کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔ تاہم خان کا پیغام یہ ہے کہ دنیا کی فالٹ لائن اسلام اور مغرب کے درمیان نہیں بلکہ جہالت اور تہذیب کے درمیان ہے۔


.