صاحب کا رومال، سگریٹ اور گڑ والی برفی

July 05, 2014

روس کی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگرس 1956ء میں منعقد ہوئی۔ سیکرٹری جنرل خروشچیف نے ایک طویل تقریر میں اسٹالن کے عہد آمریت کی تفصیل بیان کی۔ حاضرین میں سے ایک سوال بھیجا گیا کہ جب ا سٹالن یہ سب کر رہا تھا تو کامریڈ خروشچیف آپ کہاں تھے۔ خروشچیف نے سوال پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سوال بھیجنے والا کھڑا ہوجائے۔ خاموشی چھا گئی۔ سوال دہرایا گیا۔ کوئی کھڑا نہ ہوا۔ خروشچیف نے بڑے اطمینان سے سوال کا پرزہ مسل کر پھینکتے ہوئے کہا، میں بھی یہی کررہا تھا۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ فوج کی قیادت نے 2010ء میں مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی حتمی قدم اٹھانے میں تذبذب کا شکار رہے۔ جنرل کیانی کی قوت فیصلہ میں تزلزل کے باعث ملک اور قوم کو بے حد نقصان اٹھانا پڑا ۔ ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔ قومی اداروں پر حملے کیے گئے۔ دہشت گردوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوت پکڑ لی۔ جنرل اطہر عباس نے جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کے کچھ اسباب بھی بیان کیے ہیں ۔ یہ قومی اہمیت کے معاملات ہیں اور ان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ کچھ حلقے سوال کررہے ہیں کہ جنرل اطہر عباس نے اس موقع پر یہ انکشافات کیوں کیے ہیں۔ جنرل عباس دھیمے لہجے اور علمیت کی شہرت رکھتے ہیں۔ جنرل کیانی کا مزاج تو ایسا مدھم ہے کہ انہوں نے اطہر عباس کے انٹرویو پر کوئی ذاتی ردعمل بھی نہیں دیا۔ چنانچہ یہ قیاس آرائیاں بے معنی ہیں کہ جنرل اطہر عباس کو ترقی نہ ملنے پر رنج ہے یا یہ کہ سابق رہنمائوں پر چھینٹے اڑا کر موجودہ عسکری قیادت کا قد نمایاں کرنا مقصود ہے۔ ہماری موجودہ عسکری قیادت نے شمالی وزیرستان میں کارروائی شروع کر کے ایسا تاریخی فیصلہ کیا ہے جس پر ایسی داستان طرازی اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردوں کے خلاف قومی قیادت کی سرخروئی کو مصنوعی رنگ و غازے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے مجوزہ فوجی آپریشن میں تاخیر کی ذمہ داری واضح طور پر جنرل کیانی پر رکھی ہے۔ اس وقت کی منتخب سیاسی قیادت کا ذکر نہیں آیا۔ کیا ایک جمہوری حکومت میں حتمی فیصلہ سازی پر منتخب قیادت کا اختیار نہیں ہوتا؟ گویا یہ درست ہے کہ ہمارے جمہوری بندوبست میں کچھ ایسے مخصوص زاوئیے موجود ہیں جو جمہوریت کے معروف معیارات سے لگا نہیں کھاتے۔ یاد کیجئے میجر جنرل اطہر عباس ان برسوں میں بار بار بتایا کرتے تھے کہ فوج باجوڑ ، سوات اور جنوبی وزیرستان میں اپنی کامیابیوں کو مستحکم کررہی ہے، چنانچہ شمالی وزیرستان کا محاذ کھولنا مناسب نہیں۔ جنرل کیانی نے ایک سے زیادہ دفعہ فرمایا تھا کہ فوج کو نت نئے محاذوں پر الجھانا حکمت کے منافی ہو گا۔ اس دوران دانشور قلم کار ہمیں بتاتے رہے کہ سیاسی قیادت بزدل ہے اور فوجی کارروائی کی ذمہ داری اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتی۔ اب یہ راز کھل گیا کہ سیاسی قیادت تو ’چمن کے کھلنے اور مرجھانے ‘میں شریک ہی نہیں تھی۔ سیاسی قیادت کو سوات آپریشن کے بارے میں بتایا گیا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ رائے عامہ کو کیسے پلک جھپکنے میں ہموار کیا گیا تھا۔ سیاسی قیادت نے بینظیر بھٹو اور بشیر بلور سمیت سینکڑوں جانیں دیں۔ خودکش حملوں کا نشانہ بنے، گھروں پر بم پھینکے گئے۔ ان کے بچے اغوا کئے گئے۔ کچھ تو وجہ ہوگی کہ 2013ء کے انتخابات میں طالبان نے پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا۔ ہماری عسکری قیادت کا احترام سر آنکھوں پر ،ہماری سیاسی قیادت کو بلاوجہ لتاڑتے رہنے کا رجحان بھی ختم ہونا چاہئے۔ میجر جنرل (ر) اطہر عباس فرماتے ہیں کہ فوجی آپریشن میں تاخیر سے ملک و قوم کو نقصان پہنچا۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ 2010ء میں جن وجوہات کی بنا پرمجوزہ فوجی کارروائی کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ،وہ اسباب تو 2002 ء کے موسم بہار میں بھی موجود تھے جب ہم نے غبار آلود اسٹرٹیجک مقاصد کی امید پر وزیرستان اور چمن میں آنے والے طالبان سے چشم پوشی کا فیصلہ کیا تھا۔ 2010ء میں کارروائی نہ کرنے کے فیصلے سے نقصان ہوا تو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اچھے اور برے طالبان کی مفروضہ تقسیم سے ہمیں کیا فائدہ ہوا۔ غور کرنا چاہئے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور انتخابات کے بعد افغانستان کی ممکنہ صورت حال میں عدم استحکام کے خواہش مند عناصر ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں؟ آج وزیرستان میں ہمارے فوجی بھائیوں کو دشمن کی بندوقوں کا سامنا ہے ۔وہ اچھے طالبان کہاں ہیں جنہیں ہمارا دست و بازو بننا تھا۔ میجر جنرل (ر) اطہر عباس محرم راز ہیں لیکن غلطی کی نشان دہی میں اپنی مرضی کا نقطہ منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری بنیادی غلطی یہ تھی کہ ہم نے 2001 ء میں یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہمیں غیر ریاستی عناصر کی مدد سے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی پالیسی ترک کر دینی چاہئے۔ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور ہم قانونی اور اخلاقی سطح پر شفاف تشخص اور طریقہ کار کی مدد ہی سے اپنا جائز مقام حاصل کر سکتے ہیں ۔ میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ جنرل کیانی حقانی نیٹ ورک کی ممکنہ افادیت کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے۔ کیا یہ تذبذب حتمی طور پر ختم ہو چکا؟
آج 5 جولائی ہے ، ہماری تاریخ کے اس تاریک سنگ میل پر پیپلز پارٹی آمریت کے خلاف مزاحمت کا نشان تھی۔ آج 37برس بعد بتایا گیا ہے کہ 2010ء میں امریکا پیپلز پارٹی کی جاسوسی کر رہا تھا ۔ کیوں صاحب، اس جماعت پر تو امریکہ نواز پالیسیوں کا الزام دھرا جاتا تھا۔ یا تو امریکی لا علم تھے کہ ان کے مفادات کی حقیقی نگہبان کون جماعت ہے یا پھر مہربان ٹھیک ٹھیک جانتے تھے کہ کسی سیاسی جماعت کو مطعون کرنے کے لئے کون سا الزام مؤثر ہو سکتا ہے۔ الزام کی سیاست بھی عجیب نفسیات رکھتی ہے۔ جو مہربان کل تک طالبان سے مذاکرات کے علمبردار تھے اب انہیں پانچ لاکھ قبائلیوں کی بے گھری کا دکھ ستا رہا ہے۔ بے گھر ہم وطنوں کا دکھ تسلیم مگر یہ بھی تو مانئے کہ یہ عورتیں، بچے اور بوڑھے پچھلے بارہ برس سے طالبان کے یرغمالی تھے۔ ان کی تکلیف ہم سب کا مشترکہ دکھ ہے مگر ان کی اذیت کا پورا احاطہ کیجئے۔ بے گھر پاکستانیوں کے مسئلے کو فوجی کارروائی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بنائیے۔ جنرل اطہر عباس کے مطابق جنرل کیانی کو خدشات تھے کہ شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن اقدام پر یہ تاثر لیا جائے گا کہ وہ امریکی دبائو میں آکر کارروائی کر رہے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ ملک و قوم کے تحفظ کا سوال ہو تو کسی موہوم تاثر پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔ مگر بھائی، ہم تو سیٹو سینٹو کے وقت سے ’تھینک یو امریکہ‘ کی تختیاں لٹکائے کھڑے تھے۔ ہمیں تو سوویت یونین کے بے عقیدہ ہونے پر ملال تھا ۔ معاہدہ جنیوا کے بعد یہ انکشاف کیسے ہوا کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے۔شاید کبھی ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم نے مقامی چیرہ دستیوں کے دوام کی غرض سے دوستی اور دشمنی کے غیر ملکی بت تراشے تھے۔ پتھر کے یہ صنم یکے بعد دیگرے ہمارے گلے کا طوق بنتے گئے۔ اگر وزیرستان آپریشن ہمارے مفاد میں تھا تو اس سے کیا غرض کہ کون اس کا حامی تھا اور کون مخالف؟ کل ہم اپنے بچوں کی تعلیم بھی روک دیں گے کہ دنیا کو خواندگی مرغوب ہے۔ یہ سب تو رہا مگر مجھے تو ماضی کے وہ بستہ بردار یاد آرہے ہیں جو آخر شب کے دھندلکے میں سپہ سالار کی مدح لکھا کرتے تھے۔ یادش بخیر! حرف تمنا لکھتے ہوئے لجا کر ایسا سمٹتے تھے کہ صاحب کی جیب کے رومال سے چپک جاتے تھے۔ اسی ایک ہاتھی دانت کے طول و عرض میں سب آرزوئیں آویزاں کر دیتے تھے۔ لکھتے تھے کہ ’’گزشتہ شب کھانے کے بعد صاحب نے سگریٹ سلگا کر دھواں پھیپھڑوں میں کھینچا اور مردان کے گڑ والی برفی میری طرف بڑھا دی۔ میں نے جان لیا کہ مشیت الٰہی نے ہمارا نجات دہندہ چن لیا ۔ بس اب قوم ان کی درازیٔ عمر اور بلندیٔ اقبال کی دعائیں کرے۔‘‘ ہم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ نجات دہندہ قطار اندر قطار اترتے ہیں، بشارت کی صورت نظر نہیں آتی ۔