اونٹ نگل کر مچھر چھانتے لوگ

December 17, 2015

اپنی خوش نصیبی تو دیکھئے کہ ہمارا وہ ربّ العالمین رب جوکُن فیکون کا مالک ،جو شہ رگ سے بھی قریب ، جسے ثابت کرنے والا بھی اتنا ہی گمراہ جتنا اس سے انکار کرنے والا، جو ہرآغاز سے پہلے بھی تھا اور جو ہر انجام کے بعد بھی ہو گا اور جو مہربان ایسا کہ بقول بایزید بسطامی ؒ ’’ 40سال بھٹکنے کے بعد جب میں پلٹا تو پتا چلا کہ اللہ تو 40سال سے میرے انتظار میں تھا ‘‘۔
اپنی خوش نصیبی تو دیکھئے کہ ہمارا وہ رحمت العالمین نبی ؐ جو اس مقام پر کہ خود اللہ تعالیٰ فرمائیں ’’جو محمدؐ سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا ‘‘اور جن پر فرشتے درودبھیجیں ، وہ رسول ؐ جو فہم وفراست کی ان بلندیوں پر کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتادیا کہ ’’ انسانی جسم بنانے کے 120دن بعد اس میں روح ڈالی جاتی ہے‘‘اور اللہ کے ہاں کا آدھا دن یہاں کے 5سو سالوں جتنا‘‘، ایسے محبت بھرے دل والا پیغمبرؐ کہ نماز میں لمبی قرأت کرنے پر حضرت معاذ بن جبل ؓ کو ڈانٹ دیں کہ ’’کیا تمہیں پتا نہیں کہ نماز میں چھوٹے بچے اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں ‘‘،جو ایک دن صحابہ ؓ سے کہہ دیں کہ ’’مذہب کا بھی ایک وقت ہوتا ہے ہر وقت مذہب کی بات کر کے لوگوں کو پریشان نہ کیا کرو‘‘اور جو اپنے اصحابؓ کے ساتھ صرف اس وجہ سے راستہ بدل لیں کہ کہیں دودھ پلاتی کتیا ڈر کر اپنے بچوں کو دودھ پلانا ہی نہ چھوڑ دے۔
اپنی خوش نصیبی تو دیکھئے کہ ہمارا وہ مذہب کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کرمکمل کردیا کہ ’’الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘ اور ایسا مذہب کہ جب قحط پڑاتو حضرت عمر ؓ نے چوری کی سزا اس لئے معطل کر دی کہ’’ جب ہم کچھ مہیا ہی نہیں کر سکتے تو پھر سزا کیوں‘‘۔ اور پھر اپنی خوش نصیبی تو دیکھئے کہ ہمارے پاس وہ قرآن جسکی حفاظت اللہ کے ذمے، جو محفوظ اور مکمل ایسا کہ اللہ کا کلام ہو کر بھی اس میں لفظ اللہ کا اضافہ بھی نہ کیا جا سکے، جسکا رہتی دنیا تک کیلئے کھلا چیلنج کہ ’’کوئی ایسی ایک سورت تو بناکر دکھائے‘‘۔ ایک بار حضرت علی ؓ سے سوال ہوا کہ جس زمانے میں آپؓ جیسے لوگ نہیں ہوں گے اُس زمانے میں لوگ ہدایت اور رہنمائی کس سے لیں گے ‘‘جواب مِلا ’’قرآن سے کیونکہ قرآن ہر زمانے کیلئے ہے‘‘۔ امام محمد باقر نے کہا کہ ’’قرآن کے ہرلفظ کا ایک ظاہر اور پھر اس ظاہر کا بھی ایک ظاہر اور قرآن کے ہر لفظ کا ایک باطن اور پھراس باطن کا بھی ایک باطن‘‘۔
ذرا عظمت ِقرآن تو ملاحظہ ہو کہ وہ مغرب جس نے پہلے قرآن سے انکار کیا اور پھر اس انکار پرمُصر مغرب اپنے بہترین دماغ اور سب وسائل جھونک کر بھی نہ صرف ناکام ہوا بلکہ الٹا معترف ِ قرآن ہوا ، جاننا چاہتے ہیں کیسے تو وہ ایسے کہ قرآن نے جب کہا کہ ’’ اس زمین پر شروع میں سب مواحد تھے ،بت پرستی بعد میں شروع ہوئی ، مطلب نہ صرف خوف اور آسیب بعد میں مجسم ہوئے بلکہ چھ سات یونانی اورلاکھوں ہندوستانی دیوتاؤں کی زندگیاں بھی بعد میں شروع ہوئیں تو مغربی بابے اسے غلط ثابت کر نے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے لیکن پھر انسانی تاریخ کا ایک ایک لمحہ کھنگال کر تھکے ہارے ڈاکٹر اسمتھ کو ایک دن یہ کہنا ہی پڑگیا کہ ’’واقعی ابتدائی انسان ایک اللہ کی عباد ت کرتا تھا ‘‘، میکس ٹائر کو ماننا ہی پڑگیا کہ ’’ہاں شروع کے انسان میں صرف خدائے واحد کا تصور ملتا ہے ‘‘۔ پھر قرآن نے جب کہا کہ سورج،چاند،ستارے ہم نے مسخر کئے اور یہ تمام چل رہے ہیں وقتِ مقررہ تک، یعنی ایک تو یہ سب حرکت میں اور دوسرا وقت Infiniteنہیں بلکہ وقت کی بھی ایک حد ہے تو طولیمی اور بطلیموس جو جدول شمسی مرتب کرکے کہہ چکے تھے کہ پوری کائنات زمین کے گرد گھوم رہی ہے اور کو پرنیکس اور گلیلیو جن کا خیال تھا کہ سورج مرکزِکائنات ہے ،ان دونوں تھیوریوں کی بجائے نہ صرف مغرب نے قرآن کی بات مانی بلکہ اس نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ واقعی وقت Infiniteنہیں اور پھر قرآن نے جب کہا کہ’’ وقتِ آخر ستارے آگے بڑھتے ہوئے اتنے تیز رفتار ہوجائیں گے کہ نہRelativityرہے گی اور نہ رفتاراور پھر یہ سب شعاعوں کے نور کے اجتماع میں بدل جائیں گے‘‘ تو وہ سائنس جو یہ کہہ چکی تھی کہ آخر ی وقت پھیلتے بکھرتے ستارے سست پڑ کر جب سکڑنا شروع ہو ں گے تو پھر ہو گا ایک Big Crunch، اسی سائنس کے ماننے والوں کا جھکاؤ اب قرآن کی طرف ،قصہ مختصر ہاپکن کی تھیوریاں ہوں یا واٹسن کے تھیسز،برگساں اور ایلان وِتال کا فلسفہ "Stream of Consciousness"ہو یانٹشے کا نظریہ "Recurrent Life" اب نہ چاہتے ہوئے بھی مغرب کا رجوع قرآن کی طرف ،اور یہ بھی سن لیں کہ ’’وَالسَّمَاء بَنَیْنَھَابِأَیْیدٍ‘‘ ہم نے آسمانوں کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور’’وَاِنَّا لَمُوسِعُون‘‘ ہم ان کو وسیع تر کررہے ہیں ، یہ ایک آیت جہاں ایڈون ہبل اور اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق کی بنیاد وہاں یہی آیت آئن اسٹائن کی عمر بھر کی ریاضت کا حاصل بھی ، تب ہی تو’’ سائنس کے بغیر مذہب اندھا ہے‘‘ کہنے ولا آئن اسٹائن بولا ’’ مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے‘‘ اور یہی نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ کہا ہوا کہ ’’ 5ہزار سے 15ہزار سینٹی گریڈ کی تپش رکھنے والی زمین پر اللہ تعالیٰ نے جب سالہا سال تک بادل برسائے تو تب جا کر یہ زمین رہنے کے قابل ہوئی، مغربی تحقیق دان یہ مان چکے، قرآن پاک کا یہ بتانا کہ’’ انسان کو دہرے مخلوط جرثومے سے پیدا کیا گیا اور یہ ہزار ہا سال گُم سُم پڑا رہا،مغرب یہ بھی تسلیم کر چکا اور پھر قرانِ مجید نے پہلے بتایا کہ’’ زمین و آسمان تو جڑے ہوئے تھے یہ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا‘‘ ۔ مغربی تھیوری "Big bang"توبہت بعدمیں آئی۔ یہ تو صرف چند مثالیں ورنہ قرآن پاک کی 6ہزار 6سو چھیاسٹھ آیتوں میں سے ایک ہزار آیتیں سائنس سے متعلق ، لیکن یہاں غور کرنے والی بات یہ کہ ایک طرف مغرب انکار کر کے بھی جب ’’وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالَٔارْضِ‘‘ کے راستے پر چلا تو ان کیلئے ہر روز اک نیا دروازہ کھلا اور دوسری طرف ہم پیدائشی قرآن کے ماننے والے اپنے ذہنی نفاق کی وجہ سے ابھی تک کہیں Confuseتو کہیں Rigidاور مغرب کیلئے قرآن معرفت وحکمت کا اک جہان جبکہ ہمارے لئے قرآن یا تو قرآن خوانیوں کیلئے یا پھر صرف ایک ریفرنس ٹو اللہ، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس کتاب تو ہے مگر کتاب کا وہ علم نہیں کہ جس علم کی بدولت آصف بن برخیاؒ نے ملکہ سبا کا تخت پلک جھپکنے کے اٹھارہ ہزارویں حصے میں دربار ِسلیمان ؑ میں پہنچادیا۔
دوستو!750کیوبک سینٹی میٹر دماغ سے چل کر 2000 کیوبک سینٹی میٹر ذہن تک پہنچ چکے آج کے انسان کی موجودہ کائنات میں 7 ارب سے زیادہ لوگ اور 13لاکھ کے قریب اقسامِ زندگی، یہاں ایک دنیا وہ جو خدا کے ساتھ اور ایک دنیا وہ جو خدا کے بغیر، جو خدا کو نہیں مانتے انکی زندگیاں مرنے تک اور جو خدا کو مان چکے وہ ابد لاآباد، مطلب ایک طرف وہ جو صرف مرنے تک زندہ اور دوسری طرف وہ جو مرنے کے بعد اصل زندگی تک پہنچیں گے اور ذرا یہاں بھی اپنی خوش نصیبی تو دیکھئے کہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں کہ جن کی ایک زندگی کے ختم ہونے کامطلب دوسری زندگی کا شروع ہوجانا مگر یہاں آپ سے پوچھنا صرف یہ ہے کہ کبھی سوچا کہ اتنی ڈھیر ساری خوش نصیبیوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم اتنی ڈھیر ساری بدنصیبیوں میں گھرے ہوئے کیوں ۔کبھی سوچا۔یقینا نہیں سوچا ہوگا کیونکہ اگر سوچتے تو ایک تو اس حال تک نہ پہنچتے اور دوسرے یہ پتا بھی چل جاتا کہ ہم وہ جو اللہ کو مان کر بھی اللہ کی نہیں مانتے ،ہم وہ جن کی نبی ؐ سے محبتیں ظاہری اورقولی ،ہم وہ جنہوں نے اسلام میں اتنا اسلام مِلا دیا کہ اب اسلام ہی نہیں مل رہا ، ہم وہ جنہوں نے قرآن میں معنوی اور مطالب کی تحریفوں کی حد کردی اور ہم وہ جو ایک اللہ ،ایک رسول ؐ اور ایک قرآن کے ہوتے ہوئے بھی اونٹ نگل کر یوں مچھر چھان رہے ہیں کہ نہ وحدتِ ملت رہی اور نہ وحدتِ عمل ،نتیجہ حقیقت خرافات میں کھو چکی۔