زندگی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کیلئے ہے،چیف جسٹس

April 22, 2018

لاہور (نمائندہ جنگ،مانیٹر نگ سیل )چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نےکہاہےکہ عدلیہ مکمل طور پرآزاد ہے، میرا وعدہ ہے ہم کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے،سن کر حیرت ہوتی ہے، جب کچھ اینکروں کو بھونچال آتا ہے کہ مارشل لاء آرہا ہے کون لگا رہا ہے مارشل لاء؟ کس نے لگانے دینا ہے؟ کس میں ہمت ہے؟ پہلے میں نے کہاکہ اگر ایسا ہوا تومیں نہیں ہوں گا لیکن اب کہتا ہوں کہ جس دن شب خون مارا گیا تو سپریم کورٹ کے 17 ججز نہیں ہونگے، یہ 17 ججز مارشل لاءنہیں لگنے دینگے، ہم پر الزام ہے عام کیسوں کو ڈیل نہیں کررہے، ہم عام کیسوں کو ڈیل کررہے ہیں، اپنی ذات کیلئے کچھ نہیں کررہا ہے، ذاتی ایجنڈے والے پر لعنت بھیجتا ہوں، میں عوامی چیف جسٹس نہیں بلکہ میں اس ملک اور قوم کا چیف جسٹس ہوں، میں نے حقوق کیلئے علم بلند کیا ہے کیا میں غلط کررہاہوں، ووٹ کو عزت لوگوں کو ان کا حق دینا ہے، اللہ نے انسانوں کو جو سب سے بڑا تحفہ دیا وہ زندگی ہے، کیا یہ زندگی کسمپرسی میں گزارنے کیلئے دی گئی ہے؟ یا مار کھانے کیلئے ہے؟ یایہ زندگی زباں بندی کیلئےہے؟ یہ زندگی بولنے کیلئے ہے، اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنےکیلئے ہے اور جب کوئی بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بولنے نہیں دیاجاتا، عدلیہ آزاد ہےعوام کوانکے حقوق دلا کرجاؤں گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان اقبال کمپلیکس لاہور میں علامہ محمد اقبال کے 80 ویں یوم وفات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جوڈیشل مارشل لاء کا تصور نہ ذہن میں ہے اور نہ آئین میں ہے یہ کسی کی خواہش یا اختراع ہوسکتی ہے،جوڈیشل مارشل لاءاکاآئین میں کوئی وجودنہیں ہے، عوام کی حمایت سے انصاف کے فیصلے کررہے ہیں، جس دن عوامی حمایت ختم ہوجائے گی عدلیہ چلی جائے گی۔ کیوں لوگوں کو اضطراب میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ماورائے آئین کچھ کرنے کیلئے تیار نہیں۔قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور جمہوری تھا اور ملک میں صرف جمہوریت رہے گی۔ مجھے پاکستانی قوم کے چیف جسٹس کے طور پر فیصلے کرنےہیں عوام کیلئےبنیادی حقوق کی جنگ لڑرہےہیں۔ جوڈیشل مارشل لالگانےکی باتیں کرنے والے اپنے ذہن صاف کریں۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان ہمیں تحفے یاخیرات میں نہیں ملا بلکہ مستقل جدوجہد اور بزرگوں کی قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ یقین کریں قائد اعظم اور علامہ اقبال کچھ اور عرصہ زندہ رہتے توآج پاکستان ایسا نہ ہوتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس پاکستان کیلئے ہمارے بزرگوں نےاتنی قربانیاں دیں کیا انہیں ہم چکنا چور کردیں، میری نظرمیں سب سےپہلی ترجیح صرف اورصرف تعلیم ہے، وہ قومیں دیکھ لیں جنہوں نےتعلیم کاراستہ اپنایاوہ کہاں پہنچ گئیں، تعلیم سےمتعلق میں کسی قسم کاسمجھوتہ نہیں کروں گا۔ انھوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کی زمین حکومت کو کیوںدےدی گئی ؟ زمین اس لیےدی گئی کیونکہ وہاں گرڈاسٹیشن تعمیرکرناہے، گرڈاسٹیشن ضروری ہے یا تعلیم،بچوں کےمستقبل کاکیاہوگا، کسی ذاتی ایجنڈے پر چلنے والےپرلعنت بھیجتاہوں، میں صرف اورصرف بچوں کی تعلیم کیلئےیہاں آیاہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ٹیکس کا پیسہ تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا تو کہاں ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ امتیازی کلچر کو ختم کرنا ہوگا، بنیادی حقوق کی ذمہ داری کس کی ہے، کیا وہ پوری کی گئی، یہ میری ڈیوٹی ہے اور اس پر پرفارم کرنے کو تیار ہوں، اس میں میری مدد کریں اگر فیل ہوجاؤں تو اپنےآپ کو سری زندگی معاف نہیں کر پاؤں گا۔جس ووٹ کی قدر اور عزت کیلئے فرماتے ہیں اس کی عزت یہ ہے کہ لوگوں کی عزت کریں ان کو وہ حق دیں جو آئین نے ان کو فراہم کیا، میں نے بنیادی حقوق کیلئے کام کیا، کیا کوئی غلط کام کیا؟ انسان کی زندگی بہت نایاب اور قیمتی ہے، ہم کیڑے مکوڑے نہیں، کیا یہ زندگی بے چارگی، مارے کھانے، کسمپرسی اور ناجائز قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کیلئے ہے یا منہ بندی کرنے کیلئےہے، زندگی بولنے کیلئے ہے لیکن جب کوئی بولنے کی کوشش کرتا ہے اسے بولنے نہیں دیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کےجن اسپتالوں میں گیاوہاں سی سی یونہیں، اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں، جو الٹراساؤنڈکرسکے، 1300دوائیاں اسپتالوں میں مفت تقسیم کرناچاہئیں، لیبارٹری ٹیسٹ والوں کوبھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں، 1300میں سے1170دوائیاں ٹیسٹ کرلی گئیں، لیب والوں کوحکم دیا ہے 30دن کےاندرٹیسٹ رپورٹ دیں۔ کسی صوبے کی بات نہیں کررہا، اپنی مرضی سے وائس چانسلر لگادیا جاتا ہے، کسی جگہ ڈھائی سال وی سی سے نہیں لگا کسی جگہ تین ماہ سے نہیں لگا، میرٹ کا کوئی تعلق نہیں، سنیارٹی کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سےعدالتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے، اگر کام ٹھیک ہوں تو عدالتوں پر بوجھ نہیں آئے گا۔انھوں نے سوال کیا کہ کیاانصاف فراہم کرنےکی ذمہ داری صرف عدلیہ کی ہے؟ اس ملک میں اوربھی ادارےہیں انصاف دیناسب کی ذمہ داری ہے، مجھے معلوم ہے، اس وقت کتنےججز کے پاس کتنے کیسز زیرالتواہیں، بڑےبھائی کی حیثیت سےمنتیں کررہاہوں کیسزکوجلدنمٹائیں، انصاف کمپیوٹرسےنہیں عقل سےہوناہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے دوستوں سے کہا ہے میں اپنی تنخواہ چھوڑنے کیلئے تیار ہوں، میں اس وقت انصاف فراہم کرنےکاکام کررہاہوں۔ گزشتہ رات ایک کتاب موصول ہوئی جس کا سرورق پڑھا، ایک فیملی بھارت سےپاکستان آرہی تھی توصرف ایک بچی زندہ بچ گئی، اس بچی کانام کنیزتھا،مجھےجوکتاب موصول ہوئی وہ اسی نے لکھی تھی، اس بچی کنیزنےکتاب میں پاکستان حاصل کرنےکی جدوجہدبیان کی۔ ہر کورٹ میں جارہا ہوں، دیکھ رہے ہیں کیسے کارکردگی ہے، یہاں کوئی وضاحت دینے کیلئے نہیں آیا، کسی ذمہ داری سے اپنےآپ کو نہیں چھڑانا چاہتا، لیکن کیا انصاف کرنا عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے، ہر جس ادارے میں بے انصافی ہو ان کی ڈیوٹی ہے وہاں انصاف کریں کیونکہ جتنے لوگوں کےحقوق مارے جائیں گے اتنے ہی لوگ عدالت میں آئیں گے۔