رحمتوں کا نزول اور نجات کی راہیں

May 18, 2018

رحمتوں اور برکتوں کا مقدس مہینہ طلوع ہو چکا ہے۔ یہ وہی عظیم الشان مہینہ ہے جس میں قرآنِ حکیم نازل ہوا اَور برِصغیر کے مسلمانوں کا آزاد وطن پاکستان وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے لیے لیلۃ القدر مختص فرمائی اور 15؍اگست کی صبح جمعۃ الوداع کے نور سے مہک رہی تھی۔ برِصغیر ہند کے کروڑوں مسلمان سجدۂ شکر بجا لائے تھے کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی آزادی کا جو تصور 1930ءمیں پیش کیا، اسے حضرت قائداعظم نے حقیقت کا روپ عطا کیا اور سیاسی اور جمہوری طریقے سے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جسے مؤرخین بیسویں صدی کا عظیم المرتبت سیاسی معجزہ قرار دیتے ہیں۔ اس معجزے کو قراردادِ مقاصد نے مزید وسعت عطا کی جو آبائے وطن نے منظور کی تھی۔ اس میں اعلان ہوا کہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مقدس امانت ہے جسے استعمال کرنے کے حق دار صرف عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ اس میں یہ بھی اعلان ہوا تھا کہ مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق بسر کرنے کے قابل بنایا جائے گا اور اقلیتوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت گاہوں میں جانے اور اپنی تہذیب کو فروغ دینے میں پوری طرح آزاد ہوں گے۔ اس اعتبار سے قراردادِ مقاصد اسلام کے آفاقی اصولوں اور جمہوریت کے جدید تصورات کا ایک حسین امتزاج قرار پائی تھی۔
بدقسمتی سے وہ عناصر جو پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانا چاہتے تھے اور طاقت کے بعض مراکز پر قابض تھے، انہوں نے محلاتی سازشوں کے ذریعے جمہوریت کے خلاف سازشیں جاری رکھیں، چنانچہ اپریل 1954ء میں پہلا حادثہ پیش آیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین جنہوں نے پارلیمنٹ سے دو چار ہفتے پہلے ہی بجٹ منظور کرایا تھا، اُنہیں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیا اور اُن کی جگہ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنا دیا جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ تنظیمی اعتبار سے روز بروز کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ خواجہ ناظم الدین مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی برطرفی کے فوراً بعد مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس طلب کیا۔ اس میں شرکت کے لیے صرف دو ارکان آئے جبکہ اس کی تعدادبہت زیادہ تھی۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی غیر آئینی برطرفی کے خلاف ملک میں کوئی قابلِ ذکر احتجاج نہیں ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر جمہوری طاقتوں کا حوصلہ بڑھتا گیا۔ انہیں یہ جواز بھی مل گیا کہ دستور ساز اسمبلی آئین کی منظوری میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ اس کی رفتار اس قدر سست اور تشویش ناک تھی کہ جماعت اسلامی نے اس کی تحلیل کا مطالبہ کر دیا۔ عوامی دباؤ پڑنے سے دستور ساز اسمبلی نے اختلافی مسائل حل کرنے پر خاصی توجہ دی اور اکتوبر 1954ء میں دستور کی دوسری خواندگی مکمل کر لی، مگر پنجاب سے تعلق رکھنے والے دستور ساز اسمبلی کے ارکان منظور شدہ دستور سے ناخوش تھے۔ اس دستور سے فوج کے کمانڈر اِن چیف جنرل محمد ایوب بھی متفق نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب دستور ساز اسمبلی ملک کا دستور منظور کر رہی تھی، تو وہ لندن کے ایک ہوٹل میں اپنے دستوری خاکے کو آخری شکل دے رہے تھے۔ دوسری دستور ساز اسمبلی نے وہی دستور منظور کیا تھا۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد نے جمہوری عمل پر ایک اور کاری وار کیا اور 24؍اکتوبر 1954ء کو وہ دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی جس نے ایک نہایت متوازن اور زمینی حقائق سے ہم مزاج دستور کی دوسری خواندگی مکمل کر لی تھی اور اس کے نفاذ کی تاریخ قائداعظم کی تاریخِ ولادت کی مناسبت سے 25دسمبر 1954ءمقرر کی۔ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے حکم کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ دہشت کا یہ عالم تھا کہ وہ برقع پہن کر اور رکشے میں بیٹھ کر عدالت پہنچے جہاں نوجوان وکیل شریف الدین پیرزادہ نے ان کا خیرمقدم کیا۔ سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے حکم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے دستور ساز اسمبلی بحال کر دی، لیکن پاکستان کی فیڈرل کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ عدالت میں رِٹ دائر کرنے کا حق اس لیے غیر مؤثر ہے کہ اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں۔ اس حادثے کے بعد یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آئی کہ جمہوریت کے عمل کو سبوتاژ کرنے میں عدلیہ، فوج اور بعض کوتاہ نظر سیاسی عناصر شامل تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا اور قومی اسمبلی شدید دباؤ کا شکار دکھائی دی ہے اور سول ملٹری تعلقات میں کھچاؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
رمضان کا مہینہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ ہمیں اس میں اپنیغلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ اپنے ربِ غفور سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھائے جس پر اُس نے انعام کیا۔ آئین کے مطابق مقننہ، منتظمہ اور عدلیہ تین ادارے قائم ہیں جو اپنی حدود میں رہتے ہوئے امورِ مملکت سرانجام دیتے ہیں۔ قراردادِ مقاصد میں طے پایا تھا کہ تمام ادارے منتخب حکومت کے احکام بجا لائیں گے اور اس کی بالادستی قبول کریں گے، مگر اس کی منظوری کے چار سال بعد ہی غیر سیاسی ادارے حاوی ہوتے گئے اور بحران پیدا کرتے رہے۔ بحرانوں کے بھنور سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم رمضان المبارک میں صدقِ دل سے یہ اعلان کریں کہ اقتدار جو ایک مقدس امانت ہے، اسے استعمال کرنے کے مجاز عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ یہ وقت پاکستان کی عظمت اور استحکام کی خاطر اپنی اناؤں کی قربانی دینے کا ہے۔
ہمیں اس امر کا بھی اپنے رب کے حضور اعتراف کرنا چاہیے کہ غلطیاں سبھی اداروں اور بالادست شخصیتوں سے سرزد ہوئی ہیں۔ پارلیمنٹ عوام کی اجتماعی طاقت اور ان کی امنگوں کی آئینہ دار ادارہ ہے۔ اسے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دینا اور منتظمہ کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے تھا۔ وہ اس میں بری طرح ناکام رہیں کیونکہ حکومت نے اس کے معاملات میں دلچسپی نہیں لی جس کے سبب گورننس کے گھمبیر مسائل پیدا ہوئے۔ اسی طرح ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش بہت بڑی غلطی تھی جو اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔ سیاسی قیادتوں نے اپنے کارکنوں سے فاصلے بڑھائے اور مشاورت کا دائرہ تنگ ہوتا گیا۔ کابینہ اور پارلیمنٹ کے غیر مؤثر ہو جانے سے خارجہ اور قومی سلامتی کے مسائل پیدا ہوئے۔ اِس خلا کو پورا کرنے کے لیے دوسرے اداروں نے علانیہ اور درپردہ اقدامات شروع کر دیے جس نے اداروں کے مابین تصادم کی صورت پیدا کر دی۔ ممبئی حملے کے بارے میں جناب نوازشریف کی طرف سے جو انٹرویو شائع ہوا، تو گمان گزرا کہ انہوں نے اپنے اوپر، اپنی جماعت اور پاکستان پر خودکش حملہ کیا ہے جس سے طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ آئیے اس رمضان المبارک میں تمام ادارے آپس میں مل جل کر فراخ دلی سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا عہد کریں۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے لیے یہ مہینہ سب سے موزوں رہے گا کہ رحمتوں کے نزول میں ہمیں نجات کے راستے نظر آ سکتے ہیں۔ یہ مذاکرات قراردادِ مقاصد کی روح کے مطابق کامیاب ہو سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)