نائن الیون کے بعد امریکا کی جانب سے دہشت گرد قیدیوں کے ساتھ ’’ناقابل معافی‘‘

July 05, 2018

ڈیلی ٹیلی گراف کے رپورٹرزکی تحقیق:

برطانیہ کی پارلیمانی کمیٹی کو معلوم ہوا ہے کہ 2001 میں( ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر) گیارہ ستمبر (9/11) کے حملوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران امریکا کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ ’’ناقابل معذرت‘‘سلوک کو برطانیہ نے برداشت کیا ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی انٹیلی جنس اورسیکورٹی کمیٹی(آئی ایس سی) کو ایسی کوئی ’’جرم کی ناقابل تردید شہادت‘‘نہیں ملی جو اس جانب اشارہ کررہی ہو کہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی ایسی کوئی پالیسی تھی جس کے تحت ان قیدیوں کے ساتھ نارواسلوک سے متعلق رپورٹس کو جان بوجھ کر نظراندازکیا گیا ہو اور نہ ہی ایسا کوئی ثبوت ملا ہے جس میں برطانیہ کے افسران کی جانب سے ان قیدیوں پر براہ راست جسمانی بدسلوکی کی گئی ہو۔

لیکن یہ کہا گیا ہے کہ یہ بات ’’کسی شک وشبہ سے بالاتر‘‘ہے کہ برطانوی انٹیلی جنس ادارے ابتدائی مرحلے میں جان گئے تھے کہ امریکا ان قیدیوں کے ساتھ نارواسلوک کا مرتکب ہورہا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا کے قیدیوں کیساتھ رویے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے طورپر برطانوی حکومت کے وزرااورسیکورٹی ایجنسیاں دونوں’’مزید کچھ کرسکتی تھیں‘‘۔

برطانوی انٹیلی جنس اینڈسیکورٹی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 232 واقعات میں،برطانیہ کے حکام نے ان قیدیوں کے ساتھ اس نارواسلوک کے بارے میں پہلے سے جانتے ہوئے یا شبہ ہونے کے باوجود اپنے اتحادیوں کو معلومات کے حصول کے لئے تفتیشی سوالات یا انٹیلی جنس (معلومات)مہیا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

انہی قیدیوں میں سے افغانستان سے حراست میں لیے گئے ایک قیدی کو فروری2002 میں گوانتانامو بے میں قائم امریکی بحری اڈے پر بنائے گئے کیمپ ایکس رے پر فوجی حکام کی جانب سے تفتیش کیے جانے کے لئے اسٹریچر پر لایا گیا تھا۔

اور198 ایسے واقعات میں،ان حکام نے ایسے قیدیوں سے انٹیلی جنس (معلومات)حاصل کیں جن کے بارے میں وہ جانتے تھے یا انہیں شبہ تھا کہ ان کے ساتھ نارواسلوک کیا جارہا تھا۔

2002 میں کم ازکم38 ایسے (بدسلوکی کے) واقعات تھے جن کے عینی شاہد برطانوی افسران تھے یا انہوں نے اس بدسلوکی کے بارے میں سن رکھا تھا۔

’’28 واقعات میں،برطانیہ کی ان متعلقہ ایجنسیوں نے ان قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی کی سرگرمیوں کی تجویز دی،منصوبہ بندی کی یا اس پراپنی رضامندی ظاہرکی،اورمزید22 واقعات میں ایس آئی ایس یا ایم آئی فائیو(برطانوی خفیہ ایجنسی)نے ان قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی کی کارروائی کو قابل عمل بنانے کے لئے انٹیلی جنس (خفیہ معلومات)فراہم کی ہیں،اورمزید23 ایسے واقعات ہیں جن میں اس طرح کے قیدیوں کی ان غیرقانونی منتقلی کے آپریشن کو روکنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

برطانوی انٹیلی جنس اورسلامتی کی کمیٹی نے متعلقہ اداروں کے ان دعوؤں کو مستردکردیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ’’چند ایک الگ واقعات‘‘سے زیادہ کچھ نہیں ہیں،کمیٹی کے بیان کے مطابق:ہوسکتا ہے کہ یہ کسی انفرادی افسرکی نظرمیں الگ تھلگ واقعات ہوں، لیکن ہیڈآفس میں بیٹھنے والے افسران ان واقعات کو ’’ چندالگ الگ ‘‘واقعات قرارنہیں دے سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ’’ یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ برطانیہ کے ان سرکردہ عہدیداروں کو امریکا کی جانب سے ان قیدیوں کے ساتھ نارواسلوک کے اس طریقہ کار سے متعلق علم کیوں نہیں ہوا۔‘‘

’’امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا اور دیگر،کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ نارواسلوک ہورہا تھا، کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی ادارے اوردفاع انٹیلی جنس اس بارے میں ابتدائی مرحلے پر ہی سب کچھ معلوم تھا۔‘‘

برطانوی انٹیلی جنس اینڈسیکورٹی کمیٹی کی اس رپورٹ میں تین ایسے واقعات کا خصوصی طورپر ذکر ملتا ہے جب برطانوی خفیہ انٹیلی جنس ادارے ایم آئی 6 (MI6)یاایم آئی 5(MI5)کو ان ’’قیدیوں کی دوسری ریاستوں میں غیر قانونی منتقلی) کے لئے مجبورکیا گیا یا انہیں ادائیگی کی پیشکش کی گئی جہاں یہ قیدی ذہنی وجسمانی تشدد یا ظلم،غیر انسانی یا انسانیت سوزسلوک کے حقیقی خطرے سے دوچارتھے۔

28 واقعات میں،برطانیہ کی ان متعلقہ ایجنسیوں نے ان قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی کی سرگرمیوں کی تجویز دی،منصوبہ بندی کی یا اس پراپنی رضامندی ظاہرکی،اورمزید22 واقعات میں ایس آئی ایس یا ایم آئی فائیو(برطانوی خفیہ ایجنسی)نے ان قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی کی کارروائی کو قابل عمل بنانے کے لئے انٹیلی جنس (خفیہ معلومات)فراہم کی ہیں،اورمزید23 ایسے واقعات ہیں جن میں اس طرح کے قیدیوں کی ان غیرقانونی منتقلی کے آپریشن کو روکنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی رپورٹ میں اس بات کا بھی ثبوت پایا گیا ہے کہ ان قیدیوں سے متعلق نو واقعات میں برطانوی افسران نے زبانی دھمکی دی ہے جبکہ اسی طرح کم ازکم دوواقعات ایسے بھی ہیں جن میں ان قیدیوں کے ساتھ دیگرافسران کی بدسلوکی میں برطانوی اہلکار بھی شریک تھے۔

ان میں سے ایک پر ابھی مکمل تحقیقات ہونی ہے اور اس برطانوی کمیٹی نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس کیس کو دوبارہ کھولنا چاہئے۔

ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کسی امریکی طیارے نے قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی کی برطانیہ پروازکی ہو جس پر کوئی قیدی موجودتھا،لیکن اس دوران ایسے دوقیدیوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے جنہیں بحرہندمیں برطانوی علاقے ڈیاگو گارشیامنتقل کیا گیا ،وہاں ان قیدیوں کو جن حالات میں رکھا گیا ، دستیاب ریکارڈسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ’’انتہائی طورپر نامناسب ‘‘تھے۔

اس کمیٹی کے چیئرمین اور سابق اٹارنی جنرل ڈومینک گریو نے کہاکہ’’ہمارے خیال میں برطانیہ نے ایسے اقدامات کو برداشت کیا،اوردیگرایسے اقدامات کیے،جنہیں ہم بطور’’ناقابل عذریا معافی‘‘گردانتے ہیں۔‘‘

’’یہ کہا جارہا ہے کہ ہمیں اس جرم کی کوئی’’نا قابل تردید شہادت ‘‘نہیں پائی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہوکہ برطانیہ کے انٹیلی جنس اور سلامتی سے متعلقہ اداروں نے امریکا کی جانب سے ان قیدیوں کیساتھ کی گئی بدسلوکی اوران کی غیر قانونی طورپردوسری ریاستوں میں منتقلی سے متعلق رپورٹس کو جان بوجھ کر نظراندازکیا جو کہ ایک آئینی پالیسی کا معاملہ ہے۔

’’اس کے برعکس یہ شہادت ایک مشکل توازن عمل کا پتہ دیتا ہے:برطانوی (انٹیلی جنس اورسیکورٹی)ادارے محدود اثرورسوخ والے ماتحت شراکت دارتھے،اوران کا اپنے امریکی شراکت داروں کو ایسے کسی واقعے میں پریشان کرنے سے کوئی تعلق نہیں تھا جس میں وہ ان قیدیوں سے انٹیلی جنس (معلومات کے حصول) تک رسائی حاصل نہ کرپائے ہوں جوکہ برطانیہ پر کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہو۔‘‘

مسٹرگریو نے اس دباؤ کو تسلیم کیا ہے جسکے تحت یہ برطانوی ادارے کام کررہے تھے جب انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ نوستمبر(ورلڈٹریڈسینٹرسے طیارے ٹکرانے کے واقعات)جیسے پیمانے کا ممکنہ حملہ برطانیہ پر ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا :’’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس قدرشدید دباؤ کے تحت کام کرنیوالے کسی انفرادی افسرپر الزام لگانے کے خواہاں نہیں ہیں۔‘‘تاہم ان کا مزید کہنا تھا:امریکا کے اس رویے پر اثراندازہونے کیلئے بطورایک ادارہ اور وزارتی سطح پر بہت کچھ کیا جاسکتا تھا۔‘‘’’مزید یہ کیا جاسکتا تھا کہ ان قیدیوں کیساتھ کی جانیوالی بد سلوکی سے خود کو دورکھا جاتا۔‘