غزل: بس یہی ہے دعا، کراچی میں

September 05, 2018

شاہد اقبال شاہدؔ

بس یہی ہے دعا، کراچی میں

رحم کر اے خدا، کراچی میں

جانے کیا گل نیا کھلائے گا

رقصِ بادِ صبا، کراچی میں

موسمِ گُل کا یہ اشارہ ہے

اک بدلتی فضا، کراچی میں

اس کراچی کو جیتنے کے لیے

جانے کیا کیا ہوا، کراچی میں

کس کے حصے میں آئی ہے شہرت

کون رسوا ہوا، کراچی میں

سب ہیں تنہا، یہی حقیقت ہے

کون کس کا ہوا، کراچی میں

جانے والے نہ لوٹ آئیں کہیں

تم یہ سوچو ذرا کراچی میں

اب مدد کو مری اُتر آئے

آسماں سے خدا، کراچی میں

حُسن کی داد مجھ سے چاہے ہے

اک حسِیں دلبرا، کراچی میں

لاکھ چاہو بجھا نہ پائو گے

میں ہوں ایسا دیا، کراچی میں

کوئی ملتا نہیں محبت سے

سب ہیں سب سے خفا، کراچی میں

کون جیتا ہے شہر میں شاہد

ووٹ کس کو پڑا، کراچی میں