ماں کا خواب (علامہ اقبال)

September 15, 2018

میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب

یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں

اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں

لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال

قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی

تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے

دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں

خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں

اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر

مجھے اس جماعت میں آیا نظر

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا

دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا

کہا میں نے پہچان کر میری جاں

مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں

جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار

پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی

گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی

جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب

دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب

رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری

نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا

دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا

سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟

ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے!