رضاعت کی مدّت کتنی ہوتی ہے دو یا ڈھائی سال ؟

October 05, 2018

تفہیم المسائل

سوال آپ نے تفہیم المسائل ،جلد پنجم ،ص:363اور جلد ہشتم ،ص:248 پر لکھا ہے:’’ جس بچی یا بچے نے کسی عورت کا دودھ مدتِ رضاعت (یعنی ڈھائی سال کی عمر تک ) پیاہے ،اس پر رضاعی ماں باپ کی ساری اولاد خواہ وہ دودھ پلانے سے پہلے کی ہو یا بعد کی ،اسی طرح اس رضاعی ماں کی کسی دوسرے شوہر سے اولاد ، سب اس دودھ پینے والے کے لیے رضاعی بہن بھائی ہوگئے ‘‘، کیا دودھ پلانے کی مدت ڈھائی سال ہے ، حالانکہ قرآن کریم میں دودھ چھڑانے کی مدت دوسال بتائی گئی ہے ۔ (مولانا عبداللہ ،گوجرانوالہ)

جواب:آپ کا فرمان بجا ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے، اس سے زیادہ مدت کے لیے دودھ پلانے کی اجازت نہیں ہے ،البتہ حُرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے ڈھائی سال کی مدت مقرر ہے ، دُرّمختار میں ہے :ترجمہ:’’(حُرمتِ رضاعت کا رشتہ) ایک مخصوص مدت تک قائم ہوتاہے ، امامِ اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی مدت ڈھائی سال ہے او رصاحبین کے نزدیک دو سال ہے ،یہی صحیح ترین قول ہے( بحوالہ : فتح القدیر) اور اسی پر فتویٰ دیاجاتاہے ،جس طرح ’’تصحیح القدوری‘‘ میں ’’عون‘‘ سے مروی ہے ،لیکن ’’اَلْجَوہَرَۃُ النَّیِّرَہ‘‘ میں ہے : یہ (مدت) پورے ڈھائی سال ہے ،اگر دودھ چھڑانے کے بعدبھی کسی بچے نے عورت کا دودھ پیاہو ،تو اس سے حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی اور فتویٰ اسی پر ہے،(حاشیہ اب عابدین شامی، جلد9،ص:32-33 ، دمشق)‘‘۔

علامہ بدرالدین عینی حنفیؒ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ پس ثابت ہواکہ دودھ پلانے کی مدت مکمل دوسال کے بعد تک ہے کیونکہ بچے سے ایک دم دودھ چھڑانا ممکن نہیں ہوتا ،اس لیے ضروری ہے کہ حُرمتِ رضاعت کی مدت دوسال سے بڑھائی جائے گی جس میں بچہ عادتاً دودھ چھوڑنے کے عمل سے گزرتاہے ،سوکبھی اس کی غذا دودھ ہوتاہے اورکبھی دوسری چیزیں ،یہاں تک کہ وہ دودھ کو بھول جا ئے اور کم سے کم مدت جس میں بچہ پوری طرح دودھ سے دوسری غذا کی طرف منتقل ہوجاتاہے ،چھ ماہ ہے ، اس کو کم سے کم مدتِ حمل پر قیاس کریں گے (جو چھ ماہ ہے)،(عمدۃ القاری ،جلد20، ص:135)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’مسئلہ :بچے کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں۔ یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لیے ڈھائی برس کا زمانہ ہے، یعنی دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے، مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمت نکاح ثابت ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر پیا، تو حرمت نکاح نہیں، اگرچہ پلانا جائز نہیں،(بہارِ شریعت ،جلددوم،حصہ ہفتم،ص:36)‘‘۔

لہٰذا ان دونوں مقامات پر ایک طرح سے اجمال رہ گیاہے، جس پر آپ کو اشکال پیداہو ا۔اِس اجمال کی تفصیل اور وضاحت یہ ہے کہ مدتِ رضاعت بلاشبہ دوسال ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے :ترجمہ:’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں ،یہ (حکم )اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے ، (سورۃ البقرہ:233)‘‘ ۔(۲)ترجمہ:’’ اور اس کا دودھ چھڑانا دوبرس میں ہے ،(سورۂ لقمان:14)‘‘۔لیکن چونکہ یہ حلال وحرام کا مسئلہ ہے، اس لیے فقہائے کرام نے بربنائے احتیاط حُرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے ڈھائی سال کی مدت مقرر کی ہے ،کیونکہ جو بچے صرف ماں کے دودھ سے پرورش پاتے ہیں ،ان کا یک دم دودھ چھڑانا مشکل ہوتاہے ، بچہ دودھ پینے کی ضد کرتاہے ،یہاں تک کہ بعض عورتیں بچے کا دودھ چھڑانے کے لیے ایلوا یا مرچ یاکوئی کڑوی چیز لگاتی ہیں کہ بچہ دودھ سے مُتنفر ہوجائے ، یہاں تک کہ جو بچے بوتل سے نپل کے ذریعے مصنوعی دودھ پیتے ہیں ،وہ بھی یک دم دودھ نہیں چھوڑ پاتے ۔