پہلے 1991 کے پانی کے معاہدے پرتو عمل کرائیں۔۔۔

October 14, 2018

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہمارے انتہائی اعلیٰ ترین اور قابل احترام اداروں اور شخصیات کی زیر سایہ دریائے سندھ پر مزید ڈیمز بنانے کے سلسلے میں دن رات مہم چلائی جار ہی ہے۔ ایک طرف یہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف مجموعی طورپر سارا سندھ دریائے سندھ پر مزید ڈیمز بنانے اور سندھ اور خاص طور پر اس کے بڑے شہر کراچی میں غیر قانونی غیر ملکیوںکو شناختی کارڈ جاری کرنے اور شہریت دینے کے احکامات کےخلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے بشمول کراچی اورحیدر آباد سندھ کی متعدد قوم پرست تنظیموں کی طرف سے بھوک ہڑتالیں کی جارہی ہیں تو صوبے کے مختلف علاقوںمیں جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے میں نے ’’پہلے 1991کے پانی کے معاہدے پر توعمل کرائیں‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے گئے کالم میں 1991کے معاہدے کی اس شق کا ذکر کیا تھا جس کے تحت ارسا کی تشکیل اور معاہدے کے تحت کوٹری بیراج کے نیچے سمندر تک کم سے کم 10 ایم اے ایف پانی چھوڑنے کا ذکر کرتے ہوئے اس سلسلے میں تفصیل دی تھیں کہ کس طرح اس شق کے دونوں اہم حصوں کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ آج کے اس کالم میں 1991کے معاہدے کی ایک اور شق کا متن یہاں من و عن شامل کر رہا ہوں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ :

"The System -wise allocation would be worked out separately on "ten daily" basis and attached with the agreemant as part and parcel of it"

اس شق کے تحت طے پایاگیا کہ ہر صوبے کو سسٹم کا پانی’’ ٹین ڈیلیز‘‘ کے مطابق الگ الگ فراہم کیا جائے گا اور ہر صوبے کے ان ’’ٹین ڈیلیز‘‘ 91کے اس معاہدے کا اٹوٹ حصہ ہو نگے۔ اس شق میں طے تو یہ کیا گیا تھا مگر اس شق کے حوالے سے مرکز اور پنجاب نے جوکھیل کھیلا وہ بھی حیرت ناک نہیں۔ اس شق کے تحت ہر صوبے کو اپنے صوبے کے Existing جاری پانی کے منصوبے کے ’’ٹین ڈیلیز‘‘ کے حساب سے پانی کا تناسب طے کیا جائے گا اور پھر اسی تناسب سے ہر صوبے کے پانی کے ان جاری ’’ سسٹمز‘‘ کو پانی کی مقدار فراہم کی جائےگی۔ پانی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہر شق کے بارے میں فوائد اور قوانین بنانے کے لئے مرکز اور چاروں صوبوں کے متعلقہ افسران کے اجلاس شروع ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلےمیں منعقد کئے جانے والے دو ، تین اجلاسوں میں سندھ، کے پی اور بلوچستان کی طرف سے تو ٹین ڈیلیز کے تحت مطلوبہ پانی کی مقدار کی تفصیلات ان اجلاسوںمیں فراہم کی گئیں مگر حیرت انگیز طورپر بڑے صوبے پنجاب کے افسران کی طرف سے کسی نہ کسی بہانے ان اجلاسوںمیں ٹین ڈیلیز کے مطابق پنجاب کے جاری مصنوبوںکے لئے پانی کی مطلوبہ مقدار کے بارے میں آگاہ نہیں کیاگیا۔ پنجاب کے اس رویے کا خاص طور پر سندھ نے نوٹس لیا اور سندھ حکومت میں یہ رائے پیدا ہوئی کہ پنجاب اس شق کو توڑ مروڑ کر اضافی پانی حاصل کرنا چاہتاہے۔ پنجاب کے اس رویے سے سندھ اس حد تک نالاں ہوا کہ سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی نے سندھ کے سیکرٹری آبپاشی کو ہدایات دیں کہ ان کی طرف سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نام ایک ڈی او لیٹر تیار کیا جائے جس میں مرکزی حکومت پر واضح کیا جائے کہ ا گر مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت معاہدے کی ان شقوں پر عمل نہیںکرنا چاہتی ہیں تو سندھ اس معاہدے سے دست بردار ہو جائیگا۔ بعد میں سی ایم کی ہدایات کے تحت اس قسم کے ڈی او کا ڈرافٹ لیٹر بھی تیار کیا جو خود میری نظروں سے بھی گزرا مگر اس دوران جام صادق کی اسلام آباد میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی جس میں جام صادق نے صاف طور پر کہا کہ اگر پنجاب نے اس شق پر عمل نہیں کیا تو سندھ اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دے گا۔اس بات چیت کی وجہ سے وزیراعظم نوازشریف گھبراگئے اور انہوںنے جام صاحب کو یقین دلایا کہ آئندہ اجلاس میں پنجاب مطلوبہ معلومات فراہم کردے گا۔ اس کے بعد جام صاحب نے یہ ڈی او لیٹر وزیراعظم کو ارسال نہیں کیا۔ مگر جب یہ اجلاس ہوا اور پنجاب نے ٹین ڈیلیز کے تحت ان کے صوبے کے مطلوبہ منصوبوں کیلئے پانی کی مقدار کی فہرست پیش کی تو سندھ کے نمائندوں کی طرف سے شدید ردعمل کیا گیا کیونکہ اس لسٹ میں ایک نیامنصوبہ ’’گریٹر تھل کینال‘‘ بھی شامل کرکے اس کیلئے مطلوبہ پانی کی مقدار طلب کی گئی تھی۔ اجلاس کے بعد سندھ حکومت نے ٹین ڈیلیز بنیاد پر پنجاب کی طرف سے فراہم کی گئی فہرست میں ’’گریٹر تھل کینال‘‘ شامل کرنے پر شدید اعتراض کیا۔ حکومت سندھ کا موقف تھا کہ ٹین ڈیلیز کے اصول کے تحت فقط ان منصوبوں کیلئے اس معاہدے کے حوالے سے پانی فراہم کیا جانا تھا جو اس وقت جاری ہیں جبکہ اس وقت گریٹر تھل منصوبے کا وجود ہی نہیںتھا بعد میںسندھ نے اس سلسلے میںکئی احتجاج کئے مگر پنجاب اور مرکز کی طرف سے سندھ کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ اسی دوران 11ستمبر کو امریکہ کے شہر نیویارک میں ایک عمارت پر بمباری کی گئی جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک قسم کا سناٹا چھا گیا۔ مگر اگلے روز واپڈا کی دعوت پر مجھ سمیت سندھ سے صحافیوں کی ایک ٹیم ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور پہنچی۔ لاہور ایئرپورٹ سے سارے صحافیوں کو پہلے واپڈا ہائوس لایا گیا جہاں واپڈا کے کانفرنس ہال میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پریس کانفرنس سےواپڈا کے اس وقت کے چیئرمین جو ایک ریٹائر جنرل تھے، نے خطاب کیا۔ اس پریس کانفرنس سے چند دن پہلے پاکستان کے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں ایک اعلیٰسطحی اجلاس ہوا جس میں کالاباغڈیم کئی اور ڈیموں کی بھی تعمیر کی منظوری دی گئی تھی۔ واپڈا کے چیئرمین کی یہ پریس کانفرنس اس اجلاس کے فیصلوں کے پس منظر میںکی گئی تھی اور چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ ان منصوبوں پر کام شروع کرنے کے سلسلے میں کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔ پریس کانفرنس میں پہلا سوال میرا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ متعلقہ رولز آف بزنس پر عمل کئے بغیر کیسے جنرل پرویز مشرف براہ راست یہ فیصلے کرسکتے ہیں۔ اور کیسے واپڈا ان منصوبوںپر عمل درآمد کرسکتا ہے۔ میں نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت پانی کے یہ منصوبے سب سے پہلے صوبوں کی سطح پر قائم اداروں میں زیرغور آتے ہیں اور اس کے بعد سی سی آئی میں منظوری کے بعد ہی ان پر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔ چیئرمین واپڈا شاید اس سوال کیلئے تیار نہ تھے۔ (جاری ہے)