بلاول، بھٹو ، بینظیر اور زرداری کی پارٹی؟

February 27, 2016

پاکستان پیپلز پارٹی وطنِ عزیز کا قابلِ قدر سیاسی اثاثہ ہے جس کی جڑیں اپنے جیالوں کی صورت میں گراس روٹ لیول پر چاروں صوبوں میں موجود ہیں اس پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے عوامی شعور کی بیداری کےلئے نچلی سطح تک کا م کیا ہے با لخصوص پسے ہوئے کمزور طبقات کو اپنے حقوق کے حصول کی آگہی بخشی ہے بلاشبہ اس پارٹی کی بانی قیادت نے کچھ ایسے جذباتی نعرے لگوائے اور متنازع فیصلے کئے جن کی قیمت ملک و قوم کو نقصان کی صورت میں ادا کرنا پڑی لیکن مثبت طور پر دیکھا جائے تو یہی وہ پارٹی ہے جس نے نہ صرف سماجی طور پر وڈیرہ ازم کو ضرب لگائی بلکہ سیاسی طور پر جیسے تیسے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا اگرچہ اس آئین میں متنازع و خطرناک ترامیم کرتے ہوئے اس کا حلیہ بھی خود ہی بگاڑا ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے سیاسی رہنما تھے انکی اس خوبی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ غریبوں کو زبان دی بلکہ اپنے اردگرد قابل اور با صلاحیت لوگوں کی ایک کہکشاں پیدا کر لی۔
پیپلز پارٹی کے فعال ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہے کہ عوام نے اپنا مینڈیٹ دیتے ہوئے انھیں چار مرتبہ ایوانِ اقتدار میں پہنچایا حصول اقتدار کے بعد پارٹی عوام کو کس قدر ڈیلیور کر سکی یہ ایک الگ بحث ہے اگر Deliverنہیں کیا تو اس کی سزا بھی بھگتی۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جہاں خوبیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے وہیں ان کے ہیجان خیز جذباتی رویے کو ہدف ِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے بہرحال بھٹو صاحب بالآخر ایک درد ناک انجام سے دو چار ہوئے اور ما بعد ان کی ہونہار بیٹی بے نظیر نے اپنے والد محترم کے بہت سے دھونے دھو دیے۔ انھوں نے دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو کر کبھی کسی ایک مرحلے پر بھی جذباتیت یا اکھڑ پن کا مظاہرہ نہیں کیا وہ حکمرانی میں رہیں یا اپوزیشن میں بیٹھیں ہر دو مقامات پر ان کا عمومی رویہ شعور و تدبر کا حامل رہا انھوں نے اپنی سیاست میں نفرت کے با لمقابل محبت اور مصالحت کا کردار نہ صرف یہ کہ پیہم اپنائے رکھا بلکہ اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں سوائے چند ایک مثالوں کے مشکل ترین حالات میں بھی اصولوں کو حرز جاں بنایا ۔عملیت پسند سیاستدان کی حیثیت سے تکبرکا نہیں لچک کا مظاہرہ کیا۔ آمریت سے لڑائی لڑی تو اس میں بھی ایک نوع کی متانت تھی اور اگر با امر مجبوری لچک دکھائی تو اس میں بھی ایک وقار تھا، جو انھوں نے ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ وہ صیح معنوں میں دخترِ مشرق اور دختر ِپاکستان تھیں جس پر پیپلز پارٹی کیا پوری پاکستانی قوم جتنا فخر کرے کم ہو گا۔ ہماری نظر میں جناح صاحب کے بعد وطنِ عزیز کو اگر کوئی بڑی با صلاحیت و ہر دلعزیز قیادت میسر آئی ہے تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ تھیں یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ناقدین کو جہاں بھٹو صاحب کے متعلق کہنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے وہیں محترمہ کے سامنے ان کے سر احترام میں نگوں ہو جاتے ہیں بھٹو صاحب کا یہی کارنامہ کیا کم ہے کہ انھوں نے قوم کو بے نظیر تحفہ دیا۔
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پی پی پر جو برا وقت آیا ہے اس نے اتنی بڑی اور ہر دلعزیز پارٹی کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔27دسمبر 2007 ء کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو جو انتخابی کامیابی حاصل ہوئی وہ کسی پارٹی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں تھی وہ اول و آخر شہید محترمہ سے ہمدردی کا ووٹ تھا اگر محترمہ کی با قیات میں کوئی صلاحیت ہوتی تو اس وسیع تر ہمدردی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی کو صحیح معنوں میں عوامی، جمہوری سیاسی پارٹی بنا سکتے تھے ہمیں زرداری صاحب کی اس مصالحانہ خوبی کا اعتراف ہے کہ انھوں نے ان نازک لمحات میں پارٹی کو بکھرنے سے بچا لیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا کیا؟اکلوتا کارنامہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے مینڈیٹ کی حکومتی معیاد پوری کی۔ یوں معیاد پوری کر لینا کیا کوئی ایسا کارنامہ نہیںہے جس پر فخر کیا جا سکے؟۔ اگر آپ کچھ ڈیلیور نہیں کر رہے ہو تو سید ھے عوام میں جائو اور عوام کو بتائو کہ ہمارے تو ہاتھ پائوں بند ھے ہوئے تھے ہم کو لولے لنگڑے اقتدار کا کیا کرنا تھا۔آج قوم آپ سے پوچھتی ہے کہ پانچ سال مکمل کر کے آپ نے عوام کیلئے کونسا تیر چلایا ہے آپ لوگوں کی آؤٹ پٹ کیا ہے؟ اگر جواب صفر جمع صفر مساوی صفر آتا ہے ۔ خود آپ کا وزیرِ اعظم گیلانی محرومِ اقتدار ہونے کے بعد ایک ایسے ہی سوال پر اظہار ملال یوں کرتا ہے کہ میں کیسے کچھ Deliver کر سکتا تھا میں تو نام کا وزیراعظم تھا آدھا اقتدار تو روزِ اول سے ’’انھوں‘‘نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا میرے پاس تو بس نمائشی عہدہ تھا۔‘‘ زرداری صاحب آج اگر آپ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے مقتدر صدرِ مملکت تھے لیکن آپ کا آؤٹ پٹ زیرو رہا ہے تو آپ بھی اپنے وزیرِ اعظم سے ملتی جلتی تو جیہات ہی بیان کرتے پائے جائینگے۔ حالانکہ آپ کی سیاسی اپوزیشن نے آپ کو قطعی ناجائز تنگ نہیں کیا تھا آج وزیراعظم نواز شریف کو جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں آپ لوگوں کو ایسے چیلنجز بھی نہیں تھے.
آپ کو تو کھل کر کہنا چاہئے تھا کہ بات اداروں کی ہوتی ہے شخصیات کی نہیں۔ شخضیات تو آتی جاتی رہتی ہیںادارے مضبوط ہونے چاہیں۔ اگر دہشت کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے کیا اب بھی یہ کوئی احسان والی بات ہے؟کیا اس وقت اس کے علاوہ بھی کوئی آپشن بچا رہ گیا تھاٖ؟ سیاست سیاستدانوں کا کام ہے جس طرح آپریشن دل کا ہو یا دماغ کا ، آنکھوں کا یا ناک کا یا دہشت گردی کا ،یہ انہی کا کام ہے جن کی اس حوالے سے تعلیم و تربیت کی گئی ہے سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے کام کرنے چاہیں جس طرح جمہوریت کو بغیر کسی رکاوٹ یا تو قف کے پیہم تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہنا چاہئے اسی طرح آرمی کی کمان بھی Smoothly بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی رہنی اور آگے بڑھتی رہنی چاہیے۔ اسی سے اداروں میں مضبوطی آتی ہے بصورت دیگر بددلی پھیلتی ہے۔ جوڑ توڑ کی محلاتی سازشیں تیار ہوتی ہیں۔خدا کیلئے یہاں پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی ہونے دیں قانون کی حکمرانی کا اصول اپنائیں تا کہ دنیا میں ہم بھی مہذب قوم کہلا سکیں ۔ ان دنوں آپ کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنی پوری پارٹی قیادت کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اس مسئلے پر سوچ بچار کریں کہ ہم کو 2018ء کے الیکشن میں مضبوط پارٹی بن کر کیسے ابھرنا ہے اجتماعی قیادت کو ابھرنے دیں۔ خود پیچھے رہ کر بلاول کو آگے کریںانھیںمیڈیا میں لائے بغیر درونِ خانہ ایک ایک ایشو پر کھلا مباحثہ کروائیں پھر متفقہ فیصلے کریں۔ یہ عوام اور بی بی دونوں کا آپ پر قرض اور فرض ہے آپ کی پارٹی اس وقت ڈوبنے جا رہی ہے حکمت و دانش سے اسے بچائیں ڈاکٹر عاصم یا دوسروں کے پکڑے جانے کے غم میں ڈوبنے کی بجائے سچائی کو خندہ پیشانی سے سہیں جو غلط کار ہے اسے سزا ملنی چاہئے آپ قوم کے سامنے اچھی مثال قائم کریں اگلی نسل کی بہتری سوچیں ملک و قوم اور آئین و جمہوریت کی سر بلندی کیلئے مصالحت اور اعتدال کی راہ اپنائیں اسی سے پارٹی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔