پچاس افراد کی گرفتاری

October 28, 2018

پنجاب اسمبلی کے ایک دور دراز ضلع کا ایک ایم پی اے لاہور میں اپنے علاقے کے کچھ مسائل لے کر ایک بیورو کریٹ کے پاس گیا ۔مسائل سُن کراُس نے طنزیہ کہا’’تو پھرآپ کا نیا پاکستان کیسا جارہا ہے ‘‘۔پی ٹی آئی کاایم پی اے شریف آدمی تھا۔بیچارہ دانت پیس کر رہ گیا۔ اگر جواباً کچھ کہہ دیتا توکئی بریکنگ نیوز چل چکی ہوتیں ۔ سیاسی مداخلت پر ٹاک شو ہورہے ہوتے ۔

پی ٹی آئی کا ایک ایم این اے چیف سیکرٹری پنجاب کے دفتر میں داخل ہوا۔بڑی سرد مہری سے استقبال کیا گیا۔ اُس نے وزیر اعظم کاڈائریکٹو سامنے رکھا ۔ چیف سیکرٹری نے ڈائر یکٹو پڑھا اور ایک طرف رکھ دیا ۔کوئی اور فائل کھول لی اورکام کرنے لگا ۔تھوڑی دیر بعد پھر اُس نے وہ ڈائریکٹو اٹھایا اسے پھر پڑھا ۔پھردوسری طرف رکھ کر کسی اور کام میں مشغول ہو گیا ۔جب یہ عمل اُس نے تیسری بار دہرایاتو ایم این اے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھامگر اُس نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیااور خاموشی سے چیف سیکرٹری کے دفتر سے باہر نکل آیا۔کچھ دیر سوچا ۔پھر اپنے لیڈر یعنی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو میسج کیا کہ جہاں آپ کے ڈائریکٹو کے ساتھ یہ سلوک کیا گیاہے وہاں میری کتنی عزت افزائی کی گئی ہوگی ۔یہ میسج پڑھ کر عمران خان پر کیا گزری ہوگی میں اِس کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔

اگرچہ پنجاب میں بہت سے سیکرٹری بدلے جا چکے ہیں ۔ایک آدھ دن میں ڈپٹی کمشنر بھی تبدیل ہونے والے ہیں مگر مجموعی طور پر یہی محسوس ہورہا ہے بیورو کریسی کا گھوڑا بے لگام ہوچکا ہے ۔نئےسوار کو اپنی پیٹھ پر ہاتھ نہیں رکھنے دے رہا ۔وہ اسے سیدھی طرح چلنا کیا سکھائے گا،کسی زمانے میں یہ افسر ،سول سرونٹ ہوا کرتے تھے یعنی عوام کے ملازم،اب یہ سرونٹ کہلانا پسند نہیں کرتے ۔شاید اِس کی وجہ ہر سرکاری بنگلے میں موجود سرونٹ کوارٹر ہیں ۔جہاں اکثر ستر سالوں سےزندگی رو رہی ہے، چیخ رہی ہے ،کراہ رہی ہے۔ جہاں وقت رکا ہوا ہے ۔جہاں نائب قاصد کا بیٹا نائب قاصد ہی بن رہا ہے ۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نےاپنے ڈائریکٹو کی حرمت کا پورا اہتمام کیا ہوا تھا ۔وہ جب جاری ہوجاتا تھا تو اُس وقت تک وزیر اعظم کا دفتر اُس کا تعاقب جاری رکھتا تھا جب تک اُس پرعمل درآمد نہیں ہو جاتا ۔ بیوروکریسی کو سمجھا دیا گیا تھاکہ ڈائریکٹو پر عمل نہ کرنے کی واحد صورت یہی ہے کہ آپ اپنا دفتر چھوڑ دیں ۔اُس دور میں ڈائریکٹو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کم جاری کرتے تھے ۔بے شک ڈائریکٹو اب بھی بہت کم جاری کئے جارہے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کرانے کےلئے شاید کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا ۔

لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت پر پابندی عائد کر کے اچھا قدم اٹھایا ہے مگر انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر یہ بیورو کریسی خلق خداکا خیال رکھتی تو پاکستان اِن حالات کوپہنچتا ؟خدا گواہ ہے پاکستان کی تباہی میں سو فیصد کرپٹ بیورو کریسی کا ہاتھ ہے ۔کوئی ایم این اے ، کوئی ایم پی اے یا کوئی وزیر،کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کی سراسر ذمہ داربیورو کریسی پر جاتی ہے کہ اس نے غلط حکم کیوں مانا ۔اس وقت بیورو کریسی میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو پچھلے تیس سالوں میں نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں ۔انہیں انہی کے دور میں ملازمتیں ملی تھیں انہی کے دورمیں اُن کی ترقی ہوئی تھی۔شایداسی لئےپی ٹی آئی کی حکومت کے متعلق اِس بیوروکریسی کا رویہ بالکل ایساہے کہ جیسے نون لیگ نہیں ،بیورو کریسی الیکشن ہار گئی ہو۔بیورو کریسی کے بہت سےافسران گزشتہ حکومتوں کے اہم افراد کے رشتہ دار بھی ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ اس وقت نئے حکمرانوں کو پرانی بیوروکریسی اجنبی نظروں سے دیکھ رہی ہے اور لاشعوری طور پران کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی سول سروسز میں ریفارمز کےلئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنائی ہے ۔ویسے ایسی کئی کمیٹیاں پہلے بھی حکومتیں بنا چکی ہیں مگر بیورو کریسی نے ان کی سفارشات پر کبھی مکمل طور پرعمل در آمد نہیں ہونے دیا ۔ویسےصدر ایوب کے دور میں تین سو تین افرادکو بیورو کریسی سے نکالا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تیرہ سو افسروں کو زبردستی ریٹائرڈ کردیا تھا ۔جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوج سے بہت سے لوگ بیورو کریسی میں داخل کئے گئے تھے ۔اب دیکھتے ہیں کہ یہ ٹاسک فورس جو سفارشات کرتی ہے ان پر کیسے عمل درآمد ہوتا ہے ۔کتنے لوگ نکالے جاتے ہیں ۔کہتے ہیں نواب آف کالاباغ جب گورنر پنجاب ہوتے تھے تو انہوں نے ایک پروفیسر کو ڈیپوٹیشن پر پنجاب میں سیکرٹری لگانے کا حکم دیا تھا جس پر مجبوراً بیورو کریسی کوعمل درآمد کرنا پڑاتھا مگر اُس کے بعدانہوں نے ایسی صورتحال بنا دی کہ پھر کوئی اکیس بائیس گریڈ کا کوئی پروفیسربیوروکریسی میں داخل نہیں ہوسکا ۔ہوا بھی ہے تو کسی اچھے عہدے پر فائز نہیں ہوسکا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں کوئی بھی بیوروکریٹ ایسا نہیں جس کے پاس ریٹائرمنٹ کے بعدلاکھوں کروڑوں نہ ہوں ، اپنی کوٹھی نہ ہو ،اپنی کار نہ ہو ۔اس کے مقابلے میںبائیس گریڈ کا کوئی پروفیسر جب ریٹائرڈ ہوتا ہے اس کےپاس کچھ نہیں ہوتا حالانکہ تنخواہ دونوں کی برابر ہوتی ہے ۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نےپچاس سے زائد کرپٹ سیاست دانوں کی گرفتاری کی نوید دی ہے ۔یقیناً ان لوگوں نے جو کرپشن کی ہوگی ،اس میں بیورو کریسی ہی استعمال ہوئی ہوگی ۔کوئی بھی کام ہوجس میں کرپشن کی جارہی ہو ،کم از کم پانچ بیوروکریٹ ضرور ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں سے وہ فائل گزر تی ہے ۔یعنی اگر پچاس کریٹ سیاست دان کرفتار ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ کم ازکم ڈھائی سو بیورو کریٹس بھی گرفتار ہونے چاہئیں پھر جاکر کہیں ہم یہ کہہ سکیں گے کہ مکمل انصاف ہوا ہے ۔وہ افسران جو گزشتہ حکمرانوں کی کرپشن کا حصہ تھے جب تک وہ اس ملک میں حکمرانی کرتے رہیں گے ،نیا پاکستان وجود میں نہیں آ سکتا ، کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ صرف فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ بیورو کریسی سے گند نکال دیا گیا ہے۔ پاکستان کے دوسو ارب ڈالر نہ بیورو کریسی کی مدد کے بغیر سابقہ حکمرانوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں نہ ہی بیرون ملک منتقل ہوسکتے ہیں ۔انتہائی ضروری ہے کہ ہر بیورو کریٹ کے اثاثے چیک کیے جائیں ۔ ان کی آمدن اور اثاثوں میں موجود تفاوت کا جائزہ لیا جائے اور یہ کام صرف حاضر سروس بیوروکریٹ کے ساتھ نہ کیا جائے جو ریٹائر ہوچکے ہیں ان کے اثاثے بھی دیکھے جائیں ،اس فہرست میں اگر سب اداروں کےافسران کو شامل کرلیا جائے تو اور اچھا ہے۔جس ملک میں ایک پٹواری کے پاس اربوں روپے ہوسکتے ہیں وہاں ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے پاس کتنی دولت ہو گی ،اِس کا اندازہ تو تحقیق کے بعد صحیح طور پر سامنے آ سکتا ہے ۔سو میری گزارش ہے کہ کرپشن کا دائرہ صرف سیاست دانوں تک محدود نہ کیا جائے ان کے حواری بیوروکریٹس کو بھی انجام تک پہنچایا جائے۔