وزیراعظم، سوزن سے سبق سیکھیں

December 19, 2012

ڈیموکریٹک امریکی صدر بارک اوباما کی انتخابی کامیابی کے بعد آئندہ چار سالہ میعاد صدارت کے آغاز سے پہلے ہی نئے امریکی وزیرخارجہ کیلئے پہلا نام سامنے آیا کہ اقوام متحدہ میں موجودہ امریکی سفیر سوزن رائس جو اپنی قابلیت، کارکردگی، تجربہ اور سیاسی اثر و رسوخ کے لحاظ سے بھی موزوں ہیں وہ ہلیری کلنٹن کی جگہ بطور وزیرخارجہ صدر اوباما کے زیرغور ہیں۔ تقرری کیلئے صدر اوباما سے کسی رشتہ داری یا ”مفاد کے تضاد“ کے کسی امریکی قانون یا اصول کی زد میں بھی نہیں آتی تھیں البتہ لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کے واقعے کے حوالے سے ان کا ایک بیان بعض ری پبلکن سینیٹروں اور قائدین کے خیال میں متنازع تھا لیکن اس بیان سے اٹھنے والا تنازع ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان صدارتی انتخابات اور انتہائی سیاسی کشیدگی کے دور میں بھی ڈیموکریٹک بارک اوباما کو صدر کے الیکشن میں کامیابی سے روک نہ سکا بلکہ صدارتی الیکشن میں شکست خوردہ ری پبلکن پارٹی اس وقت ایوان نمائندگان میں اکثریتی نشستوں کے باوجود شکست خوردہ رویّے کا شکار ہے۔ اس تناظر میں سوزن رائس نے واشنگٹن جاکر متعدد ری پبلکن سینیٹروں اور قائدین سے ملاقاتیں بھی کیں بعض نے حمایت، خاموشی اور بعض سینیٹروں نے لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کے واقعے کے حوالے سے سوزن رائس کے بیان کو متنازع بنایا۔ چونکہ ان کی تقرری بطور وزیر خارجہ تو صدر اوباما نے اور اس تقرری کی منظوری کیلئے سماعت اور منظوری کا مرحلہ امریکی سینیٹ میں مکمل ہونا تھا لہٰذا سوزن رائس نے یہ ملاقاتیں کی تھیں۔ اوباما کی حریف ری پبلکن پارٹی کو انتخابی شکست کے بعد بحالی کیلئے بعض متنازع امور اور مسائل پر بحث اور مخالفت کی بڑی ضرورت ہے لہٰذا بعض امریکی ری پبلکن سینیٹروں جن میں لنڈسے گراہم اور دیگر قائدین شامل ہیں انہوں نے سوزن رائس کی تقرری کی سینیٹ میں سماعت اور منظوری کے وقت اپنی مخالفت کا پہلے ہی سے اعلان کردیا۔ اگر سیاسی تصادم اور کشیدگی کی ایسی ہی صورتحال کسی کی تقرری کے بارے میں پاکستان میں ہوتی اور پارلیمنٹ سے منظوری کی بھی ضرورت لازمی ہوتی تب بھی حکمراں پارٹی اور اس کا امیدوار ملکی مفادات، قومی یکجہتی اور سیاسی ماحول کی پروا کئے بغیر ایک عہدے کے لئے سیاسی انتشار ، قومی مفادات کو نقصان کی کوئی پروا کئے بغیر ڈٹ جاتا اور ہر قیمت پر عہدہ حاصل کرکے رہتا۔ عدلیہ سے ٹکراؤ، ماضی کے ریکارڈ سے بے نیازی، قاعدے قانون کے احترام کی دھجیاں اور اقتدار کی طاقت کے ساتھ حکمرانوں کے رویّے اور اقدامات کے ہاتھوں امریکہ و کینیڈا کے پاکستانیوں سمیت ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے بلکہ گزشتہ روز ہی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے اس بیان سے بھی واقف ہیں جو انہوں نے گوجر خاں میں دیا تھا کہ وہ سیاستدان ہیں اور انہیں ”کسی سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے“۔
بہرحال واشنگٹن سے نیویارک واپسی کے بعد صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سوزن رائس نے صدر اوباما کو ایک خط لکھا جس میں کہا کہ بطور وزیر خارجہ میری تقرری سے سیاسی پارٹی بازی، سیاسی کشیدگی اور ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کے مابین سیاسی محاذ آرائی پیدا ہونے کا امکان ہے اور یہ صورتحال امریکہ کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے لہٰذا صدر اوباما بطور وزیرخارجہ میرا نام پیش نہ کریں گویا سوزن رائس نے ملکی مفاد اور ملک کو داخلی سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی سے بچانے کیلئے اپنی زندگی اور کیریئر کے اعلیٰ عالمی اہمیت کے عہدے کیلئے اپنا نام واپس لے لیا اگر وہ چاہتیں تو وزیرخارجہ کے عہدے کے حاصل کرنے کیلئے امریکی صدر اوباما کی حمایت، ڈیموکریٹک پارٹی کی امریکی سینیٹ میں اکثریت اور حمایت کا بھرپور فائدہ اٹھا لیتیں اور صدر اوباما اور ان کی پارٹی کو ری پبلکن پارٹی کی مخالفت، سیاسی محاذ آرائی، الزام تراشی اور امریکی مفادات کو بچانے کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے آزمائش میں ڈال دیتیں۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ مالی مشکلات میں مبتلا امریکہ اس وقت پریشانیوں کا شکار ہے۔ ٹیکس کی شرح و نظام اور دیگر مالی امور کی منظوری کیلئے صدر اوباما کو امریکی کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے ہاتھوں مخالفت کے باعث پریشانی اور تعطل لاحق ہے جو امریکہ کیلئے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر سوزن رائس کے وزیرخارجہ کے عہدے سے نام واپس لینے کے فیصلہ کو امریکہ کیلئے حب الوطنی، صدر اوباما سے وابستگی اور باوقار انداز میں امریکی مفادات کو ذات پر فوقیت کے مترادف قرار دیا۔ کاش ہمارے پیارے پاکستان کے حکمران اور قائدین جو امریکی فوڈ ، فیشن، اسلحہ، مصنوعات، ڈالر اور لائف اسٹائل کو اپنانا اپنے لئے مہذب ہونے اور زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ جی ہاں وہی سیاستدان اور حکومتی عہدیدار جو امریکی سرپرستی اور حمایت کے حصول کے ساتھ اقتدار اور کرپشن کے مزے لوٹنے کیلئے سب کچھ کر ڈالتے ہیں وہ امریکہ کی ڈاکٹر سوزن رائس کے اس سیاسی اور قومی مفادات کو ذات پر ترجیح دینے کے رویّے کو بھی امریکی فیشن کی طرح ہی اپنالیں۔ امریکہ عالمی سپرپاور اور ایک جمہوری معاشرہ ہے جہاں توازن کے ساتھ جمہوری روایات اور اصول بھی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ترقی کی خواہشمند اقوام تاریخ میں اپنے دور کی طاقتور اقوام سے اچھے سبق حاصل کرکے اپناتی ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے داماد راجہ عظیم الحق کو ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے طور پر نامزدگی کی منظوری کے دوسرے روز گوجر خاں میں بیان دیتے ہوئے خود کو سیاستدان قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ”کسی سے انہیں سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے“۔ محترم وزیراعظم، اپنے داماد کو اپنے ہاتھوں سے ایک عالمی ادارے میں ایک اعلیٰ عہدے پر نامزد کرنا،امریکہ اور دنیا کے ہر مہذب جمہوری معاشرے کے اصولوں کے تحت ”مفاد کا تضاد“ ہے اور غیر اخلاقی ہے چاہے آپ کا داماد کتنا ہی قابل ہو۔ حقائق اور آپ کے داماد کی ملازمت تجربہ، تعلیمی قابلیت برائے عالمی ادارہ بھی متنازع ہے۔ یہ عالمی ادارے میں پاکستان کے امیج کا بھی معاملہ ہے آپ کے داماد کی نامزدگی کا ریکارڈ اور حقائق بھی آپ کی بیوروکریسی کی داخلی جنگ اور طاقت کی بدولت عوام کے سامنے آئے ہیں۔آپ بھی امریکی حمایت، سرپرستی اور لائف اسٹائل کے متلاشی ہیں لہٰذا دست بستہ عرض ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی حکمران سوزن رائس سے سبق سیکھ لیں اس سے آپ کا اور پاکستانیوں کا بھی بھلا ہوگا۔ امریکہ میں الیکشن ہوچکا آپ کو ابھی الیکشن کے مرحلہ سے گزرنا ہے۔