کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے

May 19, 2019

کنفیوشس سے کسی نے پوچھا تھا کہ دنیا میں سب سے بڑا بوجھ کس چیز کا ہے تو اس نے کہا تھا ’’باپ کے کاندھے پر رکھے ہوئے جوان بیٹے کےجنازہ کا‘‘۔ یہ وہ بوجھ ہےجو باپ کی کمر دہری کر دیتا ہے ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے پیپلز پارٹی کے رہنماقمر زمان کائرہ کے جواں سال بیٹے اسامہ کی موت کی خبر سنی توخیال آیاکہ آج کے بعد قمرزمان کائرہ کوئی اور قمر زمان کائرہ ہوگا ۔یہ دکھ ناقابلِ بیان ہے ۔والدین کےلئے ایک ایسی قیامت ہےجو عمر بھر گزرتی ہی نہیں ۔یاد کی کپکپاتی لو بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔بے شک جوانی کی موت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے ۔اِس سفاک خبر نے اپنے بھی کئی زخم تازہ کر دئیے ہیں ، مجھے اپنا دوست بیرم خان یاد آرہا ہے ۔ہائے کیا خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا،ہم دونوں کئی سال اکٹھے رہے ،اللہ تعالیٰ نے اُسےبے پناہ خوبیاں عطا کی تھیں ،وہ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن خان کا بیٹا تھا ،میانوالی سے تحریک انصاف کے ایم این اے امجد علی خان کاچھوٹے بھائی تھا۔وہ بھی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوا تھا۔، اس کے بچھڑنے کا دکھ ابھی تک دل میں تروتازہ ہے، ڈاکٹر شیر افگن خان اور بیرم خان کی والدہ تو یہ دکھ زیادہ عرصہ تک برداشت نہیں کر سکی تھی ،دونوں ہی چند سال میں دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے تھے ۔آدمی سمجھے یا نہ سمجھے یہ بھی ایک آزمائش ہے ۔اللہ تعالی ایسی آزمائش میں کسی کو نہ ڈالے ۔پیپلزپارٹی شہلا رضا تو اس سے بھی بڑے دکھ سے گزری ہیں ،انہیں اپنے ہاتھوں سے اپنی ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو دفنانا پڑا۔یہ دونوں بھی ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے تھے ۔ پچھلے سال کلفٹن میں تیز رفتار گاڑی الٹنے سے پیپلزپارٹی کی رہنما روبینہ قائم خانی کا جواں سال بیٹا جاں بحق ہوا تھا،خالد احمد نے کہا تھا

کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے

اِسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے

مجھے اسلم کولسری کا بھی ایک شعر یاد آرہا ہے جو اس نے اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر کہا تھا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

ابھی کچھ عرصہ پہلے ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ پنجاب زاہد سلیم گوندل کا چوبیس سالہ بیٹا فوت ہوا۔وہ دودن پہلے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے واپس وطن پہنچا تھا ،اُن کا غم بھی ماں باپ کےلئےناقابلِ برداشت ہے ۔اللہ ہی ہے جوصبر دے دیتا ہے وگرنہ زندگی سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے ،ابھی پچھلے دنوں سابق وفاقی وزیر بلیغ الرحمن کا بیٹا اور اہلیہ بھی ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے ۔سال ڈیڑھ پہلے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا بیٹا بھی جاں بحق ہوا۔اسے لندن کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا ۔صدیق الفاروق کےنوجوان بیٹے کا انتقال ہوا تھا ۔چند سال پہلےصوبائی وزیرمحمود الرشید کا جواں سال بیٹا بھی فوت ہوا۔شایددوسال پہلے کی بات ہے جب شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کا جواں سال بیٹا ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جاں بحق ہواتھا۔ہائے زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔میر انیس نے کہا تھا ’’دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ‘‘۔اپنے زمانے کی معروف اداکارہ روحی بانو کا جب جوان بیٹا فوت ہوا تھا تو وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی تھیں ۔یہ نہیں کہ صرف بڑے اور مشہور لوگوں کے جواں بیٹے فوت ہوتے ہیں ۔فرق بس اتنا ہے عام آدمیوں کے بیٹوں کی خبریں اخبارات میں شائع نہیں ہوتیں ورنہ اُن کا دکھ بھی کسی سے کم نہیں ۔اسامہ کائرہ کے ساتھ حادثےمیں اُس کا ایک دوست بھی جاں بحق ہوا تھا مگراُس کی اتنی ہی شاخت تھی جتنا ذکر ہوا ہے ۔موت نہیں دیکھتی کہ کون کس کا بیٹا ہے اور کون کس کا باپ ۔وہ بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔البتہ ترقی یافتہ ممالک میں مجموعی طورپر ’’مرگ ِجواں سال ‘‘ تعداد بہت کم ہے ۔خاص طور پر ٹریفک کے حادثات پر بہت کنٹرول کرلیا گیا ہے ۔میں جب ناروے گیا تو پتہ چلا کہ پورے ملک میں سال بھر میں کوئی ایک آدھ ٹریفک کا حادثہ ہوتا ہے ۔یورپ میں ٹریفک کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ ڈرائیونگ لائنس حاصل کرنے پر لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں ۔وہاں اگر کوئی نوجوان ویسے فوت ہوجائے تو کافی عرصہ تک انکوائری جاری رہتی ہے کہ کہیں ڈاکٹرز سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی ۔اس بات کی بھی تفتیش کی جاتی ہے کہ مرنے والا جس بیماری میں فوت ہوا ہے اس کاپتہ ڈاکٹرزکو وقت پر کیوں نہیں چل سکا ۔یعنی ترقی یافتہ قومیں ناگہانی موت سے مسلسل حالت جنگ میں ہیں ۔

باپ کا دکھ کوئی باپ ہی سمجھ سکتاہے، بیٹا نہیں ،وہ جب انجانے راستوں پر بہت دور نکل جاتا ہے، وہاں چلا جاتاہے جہاں سے صدا بھی پلٹ کر نہیں آتی ،تو درد کے بھیڑئیے باپ کے سینے کو چیرنے لگتے ہیں ۔بے شک موت کا ذائقہ ہر شخص نے چکھنا ہے ۔اپنا قبیلہ ازل سے اجل کی زد پر ہے ۔ہم لاشیں گنتے گنتے تھک چکے ہیں ،مگر کیا کریں ۔کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔یہی بے رحم دکھ ازل سےہم سب کا ہمزاد ہے۔ہمیشہ کیلئے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ کلیجہ چیر دیتا ہے وہ کل تک جس کی آواز۔۔جس کے انداز۔۔رنگ اور خوشبو کا جادو لئے ہوئے تھے آج اسے اپنے ہاتھوں سے کیسےمٹی میں اتار دیا جائےاور پھر جوان بیٹے کو قبر میں اتارنے کےلئےجگر نہیں چٹان چاہئے ۔مگر یہی زندگی کا دستور ہے ۔ موت ایک آفاقی حقیقت ہے مگر ہم زندگی پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔مرنے والے ساتھ مرتے نہیں مگر غالب کی طرح آدمی سوچتا ضرورہے۔

ہاں اے فلک پیر! جواں تھا یہ اسامہ

کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور