مغلیہ دور کے 40 صوبیدار

May 21, 2019

محمد باسط اللہ بیگ

ظہیرالدین محمد بابر (1483-1530) ہندوستان میں مغل دور حکومت کا پہلا مغل بادشاہ گزرا ہے۔ بابر کو ہندوستان میں قدم جمانے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے اس نے کئی علاقے فتح کیے۔ جب بابر نے 1507ء میں کابل میں اپنی حکومت قائم کی اور قندھار کو فتح کیا تو اس نے قندھار کے حکمران ، شاہ بیگ ارغون کو سندھ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ شاہ بیگ ارغون نے 1520ء میں سندھ میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔1521ء میں اس نے وفات پائی۔

اس کے بعد اس کا جاں نشین شاہ حسن سندھ کا حکم راں بن گیا۔ اس کے تعلقات بابر سے بہت ابہتر تھے۔1555 میں شاہ حسن کی وفات کے بعد سندھ میں مغل سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ٹھٹھہ کی حکومت مرزا عیسیٰ بیگ ترخان کے حصے میں آئی اور بکھر کی حکومت سبلطان محمود خان کو ملی۔ مغل سلطنت کی اس تقسیم نے سندھ حکومت کو کمزور کردیا۔ مغل حکومت میں نصیر الدین محمد ہمایوں (1508-1556)کا دور حکومت بہت ہی انتشار کازمانہ تھا۔ جلال الدین محمد اکبر کی تخت نشینی کے بعد اکبر نے بڑی ہی فہم و فراست اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ سے مغل سلطنت کو بہتر طریقے سے سنبھالا۔ پوری مغل تاریخ میں اکبر جیسا قابل حکمراں نہیں گزرا۔ آج بھی مؤرخین اسے ’’مغل اعظم ‘‘کے لقب سے یادکرتے ہیں۔

اکبر کو سیاسی اقدار حاصل کرنے اور حکومت کو مستحکم کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے اپنی اندرونی طاقت کو راجپوتوں سے مل کر مستحکم کیا۔ اکبربادشاہ نے سیاسی طورپراپنے تعلقات راجپوتوں سے اس قدرآگے بڑھائے کہ اس نے ان میں شادی بیاہ کرکے اپنی سلطنت کو مزید مضبوط کرلیا تھا۔ ہندوستان بھر میں چھوٹی چھوٹی آزاد اور خودمختار ریاستیں جو مغل سلطنت کے اردگرد موجود تھیں، ، اکبر نے ایک ایک کرکے ان کو بھی فتح کرلیا تھا۔ اس طرح مالی طور پر مغل سلطنت اور رعایا بہت خوش حال تھی۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کی شہرت اور دولت کا سن کر وسط ایشیا اور ایران سے تجربہ کار اور ہنرمند ، دست کار، موسیقار،مصور، ادیب و شاعر اور مؤرخ، امراء اور علماء منتظمین ، تاجر ، تجربہ کار جرنیل و سپہ سالار وغیرہ ہندوستان کا رخ کرنے لگے۔ وہ اپنے تجربات اور نئے طور طریقے بھی ساتھ لے کرآئے۔ اس وقت تعمیر و ترقی کی جانب گامزن مغل حکومت کو ایسے افراد کی بہت سخت ضرورت تھی، جس کی وجہ سے مغل سلطنت میں علم و ادب، فنون اور تعمیری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔

اکبر نے نئی ریاستوں کی فتح کے بعد وہاں مغل صوبیدار مقرر کرنے کا ارادہ کیااور اس سلسلے میں منصب داری نظام حکومت کو 1575ء میں شروع کیا، جس سےفوجی اور انتظامی لحاظ سے سلطنت کا انتظام مضبوط اور بہتر ہوا، پھر 1580ء میں اکبر نے ان میں مزید اصلاحات کیں۔ اس نے صوبائی نظام اس طرح سے قائم کیا کہ حکومت کا نظام بہتر طریقے سے رواں دواں رہے۔

مغلوں نے سندھ پر 1591ء سے اقتدار حاصل کیا ۔ ان کا یہ اقتدار 1738ء تک قائم رہا۔ سندھ میں مغلوں نے 147سال تک حکومت کی۔ مغل دور میں سندھ کی سرکاری اور دفتری زبان فارسی تھی۔ ابتداء میں سندھ میں مغلوں کا اقتدار ترخان حکم رانوں کی موروثی جاگیر میں رہا لیکن 1612ء میں مغل سلطنت کا حصہ بن گیا اور 1738ء تک یہاں مغل صوبیدار پتے رہے۔ صوبیدار کا تقرر صوبوں کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا تھا۔ کتاب ’’تحفتہ الکرام‘‘ کے مصنف میر علی شیر قانع کے مطابق مغل صوبے داروں کی تعداد چالیس بتائی ہے۔ بہت سے صوبیدار ایک سے زیادہ مرتبہ بھی سندھ میں تعینات ر ہے۔ مشہور محقق ، پیر حسام الدین راشدی کے مطابق ن کی تعداد 64تک بتائی گئی ہے۔ اکثر بڑے صوبوں میں شہزادوں اور اعلیٰ منصب داروں کا تقرر ہوا کرتا تھا۔

ذیل میں سندھ کے چند صوبیداروں کے اسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں۔

مرزارستم صفوی ، مرید خان، عطر خان، نواب اعظم خان، نواب دلبر خان اور نواب صادق خان وغیرہ وغیرہ۔

سندھ کے بہت سے صوبیداروں کو علم و ادب سے گہری دلچسی رہی ہے۔ان میں مہابت خان، سیف اللہ خان، نواب امیر ،ان، دلبر دل خان، میر لطف علی خان، حفیظ اللہ خان، ابو نصرت خان اور امیر الدین خان وغیرہ زشامل ہیں۔

ان صوبیداروں نے ادیبوں، شاعروں اور مؤرخین کی بہت ہمت افزائی کی اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھا اور ان کی پذیرائی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔اس دور کے معروف مؤرخین میں سید محمد میر معصوم بکھری، فرید بکھری اور سید محمد طاہر نسائی کا نام قابل ذکر ہے۔

بہت سے صوبیداروں نے سندھ میں محلات اور حویلیاں تعمیر کرائیں۔ مذہبی عقیدت میں مساجد تعمیر کروائیں۔ آج بھی ٹھٹھہ کی ’’شاہ جہانی مسجد‘‘ مغل دور حکومت کی شان و شوکت کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ان صوبیدار وں نے شہر وں کے تحفظ کے لیے بھی اقدامات کیے اور ان کی حفاظت کے لیے قلعے اور فصیلیں تعمیر کروائیں۔ اکثر عمارتیں امتداد زمانہ کا شکار ہوکر قصہ پارینہ بن چکی ہیں، جو باقی رہ گئی ہیں وہ بھی عدم توجیہی کے باعث خستہ حالت میں ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت انہیں قومی ورثہ قرار دے کور انہیں محفوظ کرسکتے ہیں۔