ڈاکٹر انور سجاد کی یادیں

July 10, 2019

اسپین کے دارالحکومت میڈ رڈ کے لگ بھگ وسط میں سپینش نیشنل آرٹ میوزیم ''پراڈو'' واقع ہے، اس میں موجود یورپی دنیا کے عظیم اور قیمتی فن پارے آرٹ سے محبت کرنے والوں کو اپنی جانب کھینچتے رہتے ہیں۔ اسی میوزیم میں ڈچ مصور ہائر نیمس بوش (Hieronymus Bosch) کا ایک شاہکار ،(The Garden of Earthly Delights) ’’زمینی خوشیوں کا باغ‘‘ بھی ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہے ۔ دو چھوٹے اور ایک بڑے،تین پینلوں پر مشتمل یہ فن پارہ اپنے اندر اِتنا کچھ سمیٹے ہوئے ہے کہ مہینوں اس کے سامنے کھڑے ہو کراس میں موجود باریک اور جادوئی کام کو معنی پہناتے چلے جائیں ، تب بھی اس کی تفہیم مکمل نہ ہو پائے گی۔ 87X77انچ کے وسطی پینل پر دونوں بغلی پینلوں کو وسطی حصے پر اوندھا کریوں جوڑا جاسکتا ہے کہ اس کی پشت پر بنا ہوا کام بھی مکمل صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ وہاں ایک گلوب ہے جس میں دنیا کی تخلیق کا تیسرا دِن دِکھایا جارہا ہے۔ یہی وہ فن پارہ ہے جس کے وسیلے سے میں ڈاکٹر انور سجاد کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ہوا یوں تھاکہ جب اُن کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ آیا تو پہلے پہل اس کتاب کے نام نے توجہ کھینچی تھی۔ میں نے اسے حاصل کیا تو اُس کی پیشکش کے انداز سے متاثر ہوا۔ لگ بھگ ہر صفحے پر اوپر کی جانب ایک مضبوط ہاتھ کی گرفت میں ایک کمزور سا ہاتھ تھا جس کی انگلیاں تکلیف کی شدت کو سہہ لینے کے لیے اندر کی طرف موڑ لی گئی تھیں۔ کتاب کے عین آغاز میں ، جہاں ’’پہلا لفظ ‘‘کا عنوان قائم کرکے صرف تین جملوں کی مختصر عبارت ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک نظم کی صورت دس سطروں میں ترتیب دے لی گئی تھی ، اس کے نیچے ایک عورت کا اسکیچ تھا۔ عورت کا منہ آسمان کی طرف اُٹھا ہوا تھا اور ایک چیخ اُس کے حلقوم کو چیرتی ہوئی نکل رہی تھی ۔ جی چاہتا ہے ، اس چیخ ہو جانے والی عبارت کو یہاں مقتبس کردوں:

’’ میں یہاں ایک ہوں۔

اگر خواہشوں، خیالوں اور لفظوں کو،

آواز سے روشناس کرانا خطرناک ہے

تو باہر سارا ہجوم ، سارا شہر، سارا ملک، ساری کائنات

خطرناک ہے۔

اُنہوں نے اپنے مقدر پر لگی جبر و استبداد کی مہریں

توڑ ڈالی ہیں۔‘‘

وہ ناول جو اپنی تیکنیک اور زبان کے شعری بہائو کی وجہ سے بالکل مختلف ہو گیا تھا ، اس کے آغاز میں ہم ہائر نیمس بوش سے متعارف ہوتے ہیں اور اس کے معروف فن پارے ’’زمینی خوشیوں کے باغ‘‘ سے بھی۔ ڈاکٹر انور سجاد نے اپنے ناول کا نام’’خوشیوں کا باغ‘‘ نہ صرف اس فن پارے سے لیا ، کہانی کی تحریک بھی وہیں سے پائی تھی۔ 1981 میں چھپنے والے اس ناول میں مذہبی بربریت ،عسکری اور ریاستی تشدد اور تیسری دنیا کے پس ماندہ سماج میں بے بسی کی تصویر ہو جانے والے ’’میں‘‘ کے کردار سے کہانی متشکل کی گئی ہے۔ جی، ایک ایسا کردار جو مادی آسائشوں پر دستر س رکھتے ہوئے بھی گھٹن کا شکار ہے۔ اس کی روح بے چین ہے اور اس کی ذات ایک شدیداکلاپے کا عذاب سہنے پر مجبور ہے۔

’’ جب سب ٹھیک ٹھاک ہے ، جب میری زندگی میں مکمل طور پر رچائو ہے تو پھر میرے جسم میں چیونٹیاں کیوں رینگتی ہیں؟ مجھے ان کی سرسراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔‘‘ (خوشیوں کا باغ)

انور سجاد کا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے علامت اور تجرید کے وسیلوں کو برت کر اُردو افسانے میں بالکل الگ رجحان کی صورت گری کی، تاہم یہ بھی صورت واقعہ ہے کہ وہ علامت اور تجرید کی جانب ایک روشن صبح جست لگا کر نہیں پہنچ گئے تھے اُن کے افسانوں کے مجموعوں’’ پہلی کہانیاں‘‘،’’ چوراہا‘‘،’’ استعارے‘‘ اور ’’آج ‘‘ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے تخلیقی تجربات سے وابستہ رہ کر اس راہ پر آئے تھے۔ انور سجاد نے کہیں لکھا تھا کہ اُن کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ بدلتی ہوئی حقیقتوں کے ادراک کی کوشش میں ، نئی صورت حال کے توسل سے رواں زندگی کے بارے میں اپنی فہم اور نقطہ نظر اور ہیئت کے درمیان جمالیاتی اعتبار سے ایک جدلیاتی توازن قائم ہو جائے۔ یہ توازن جہاں جہاں قائم ہوا ہے انور سجاد کے افسانے نے اپنے اثرات مرتب کیے ہیں ۔

یہ کتنا بڑا سانحہ ہے کہ اپنے زمانے کا سب سے زیادہ زندہ شخص ، جو ایک وجود میں کئی تخلیقی وجود رکھتا تھا ، لاہور کی چونا منڈی کا ڈاکٹر، ایک رقاص جس نے باقاعدہ تربیت حاصل کی ،ڈرامے لکھنے والا، اداکاری کے جوہر دکھانے والا، مصوری اور موسیقی کا رسیا ، کہانیاں لکھنے اور ایک ہنگامہ برپا کرنے والا ، ترقی پسند، روشن خیال، سیاسی کارکن اور عین اسی لمحے فکشن پر جدیدیت کے دروازے کھولنے والا،اول اول ادبی منظر نامے سے الگ ہوتاچلا جاتا ہے ، اور اس کا سبب ایک عورت ہے حالاں کہ اس کا فن ہمیشہ عورت ذات کے ساتھ رہا ہے۔ ایک بڑے گھر اور سماجی مرتبے والاشخص تنگ دست ہو کر سماجی بے حسی کے چرکے سہتا ہے ، پھر دُکھ جھیلتے اور بیماریوں سے لڑتے بھڑتے ہماری نظروں سے غائب ہو جاتا ہے ۔ جی وہی انور سجاد جو کہا کرتے تھے کہ میں غیب کو ’انسانیا‘ سکتا ہوں،لیکن انسان کو ’غیبیا‘ نہیں سکتا ، وہی ایسےمانے میں مر کر غائب ہو گیا۔ جس میں غائب ہونے کے بعد مر جانا یا مارا جانا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔