’سلطانی جمہور‘ کے تقاضے

July 17, 2019

پچھلے تین سو سالوں میں اس عالمِ رنگ و بو کا جو ارتقا ہوا ہے اور جو بنیادی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئی ہیں ان سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جمہوریت اور بالخصوص سوشل ڈیمو کریسی کے ساتھ ساتھ سلجھا ہوا سرمایہ داری نظام ہی ممکنہ بہترین حل ہیں۔ اس عرصے میں دنیا کے مختلف معاشروں میں متنوع تجربات ہوئے ہیں اور آخرش نتیجہ یہی نکلا ہے کہ تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت ہی بہترین سیاسی نظام ہے اور ابھی تک ہم ارتقا کی جس منزل تک پہنچے ہیں وہاں سرمایہ داری یا کم از کم کنٹرول منڈیوں کا سلسلہ ہی معاشی فلاح کا ممکن راستہ ہے۔ اگر سوشلسٹ نظام زیادہ منصفانہ اور مثبت انسانی اقدار کا حامل ہے بھی تو ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ انسانی، سماجی، سیاسی اور معاشی ارتقا ناہموار ہوتا ہے اور سیدھی لکیر پر نہیں چلتا۔ مثلاً ارتقائی عمل کے رد عمل کے طور پر عہدِ حاضر کے امریکہ میں غیر جمہوری طاقتوں کا غلبہ نظر آ رہا ہے، یورپ میں بھی سفید فام قوم پرستی کے بگولے اٹھ رہے ہیں اور باقی ماندہ ترقی پذیر ملکوں میں بہت جگہ کسی نہ کسی رنگ میں غیر جمہوری طاقتیں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔

تین سو سال پہلے دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں جو مذہبی ادارے کی شراکت کے ساتھ دنیا میں حکمرانی کرتی تھیں۔ یورپ میں پاپائے روم اور بادشاہ مل بانٹ کر کھاتے اور عوام کو لوٹتے تھے۔ ہندوستان میں دو ہزار سالوں سے پہلے برہمن کھشتریوں کا متحدہ راج چل رہا تھا جس کے ساتھ مسلمان سلاطین اور قاضیوں کے ادارے نے لے لی۔ دنیا کے چند ہاتھوں میں سمٹے ہوئے اقتدار میں 1848کے انقلاب فرانس کے بعد بنیادی تبدیلی آئی اور جمہوری ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔

ان نئی جمہوری ریاستوں میں نہ صرف عوام الناس کی رائے اہم ترین ہو گئی بلکہ مذہبی اور عسکری اداروں کو سیاسی اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ان دو اداروں کی سیاسی اقتدار میں شمولیت جمہوریت کی روح کو کچل دیتی ہے۔ اسی اصول پر چلتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک ’مہذب‘ دور میں داخل ہوئے۔ سیاست کے ساتھ ساتھ معاشی ارتقا بھی مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ جب یورپ میں صنعتی انقلاب نے پرانے ڈھانچے کو تہہ و بالا کیا تو ریاست(یا بادشاہوں) کی مداخلت کے خلاف آزاد منڈیوں کا فلسفہ کلاسیکی معاشیات کی بنیاد بن گیا۔ جمہوری نظام میں فرد کی آزادی اور آزاد منڈیوں کے تصور میں ایک ربط تھا۔ آزاد منڈیوں کے تصور کی بنیاد یہ تھی کہ اگر بیرونی یا ریاستی مداخلت نہ ہو تو منڈیاں خود ہی طلب اور رسد کے اصولوں کے مطابق توازن قائم کر لیتی ہیں لیکن بہت سے معاشی بحرانوں اور عوام کی بڑھتی ہوئی بدحالی سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ منڈیاں خود بخود توازن قائم نہیں کر سکتیں اور نہ ہی عوام کی حالت بہتر بنا سکتی ہیں۔ اس میں 1930کے ارد گرد کے سالوں میں آنے والے بدترین معاشی ڈپریشن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس شدید بحران سے نمٹنے کے لئے مغرب کی فلاحی ریاستیں وجود میں آئیں، ریاستوں نے منڈی کے نظام میں مخصوص طرز کی مداخلت شروع کردی۔ اس کا بنیادی طریق کار یہ نکالا گیا کہ مختلف ٹیکسوں سے رقومات جمع کر کے ریاست کچھ اداروں(صحت اور تعلیم وغیرہ) کو منڈی کے بجائے خود چلائے۔ اس نئے طرز عمل سے یورپ میں فلاحی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا۔ پچھلے کئی سالوں سے ہونے والے عالمی جائزوں میں یہ ثابت ہوا ہے کہ جن ملکوں میں فلاحی نظام وسیع تر ہے(سکنڈے نیویا، نیوزی لینڈ وغیرہ) وہاں کے عوام زیادہ مطمئن اور خوش ہیں۔ معروضی سطح پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مستقبل قریب میں یہی نظام دنیا کی فلاح کی ضمانت دے سکتا ہے۔

لیکن جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے سیاسی اور معاشی ارتقا سیدھی لکیر پر چلنے کے بجائے پیچیدہ پس و پیش کے عمل سے گزرتا ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو 1980کے رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کی سربراہی میں فلاحی ریاستی نظاموں کے خلاف رد عمل شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر جمہوری دور پر منتج ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف مذہبی اور عسکری اداروں کو ریاستی اقتدار میں شامل کر کے(4جولائی کی فوجی پریڈ) زمانہ جاہلیت کو واپس لانا چاہتے ہیں بلکہ امیروں کو ٹیکس چھوٹ دے کر رہے سہے فلاحی نظام کو بھی تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ دیہی سفید فام اقلیت کی برتری کو قائم رکھنے کے لئے تارکین وطن، بالخصوص ہسپانوی یا لاطینی عوام کو اچھوت بنانے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں: امریکہ کے بارڈر پر نہ صرف پناہ گزینوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے بلکہ باقی ماندہ تارکین وطن کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جا رہا ہے۔

آخر کار ڈونلڈ ٹرمپ جیسی منفی طاقتیں کامیاب نہیں ہو سکتیں اور تاریخی ارتقا کا اپنے بنیادی راستے پر واپس آنا ناگزیر ہے۔ دنیا کے اور بہت سے ممالک بھی غیر جمہوری طاقتوں کے قبضے میں ہیں لیکن کب تک؟ ان سب میں بدترین امتزاج یہ ہے کہ مذہبی اور غیر جمہوری ادارے ریاست کے نظام اقتدار کا حصہ ہوں۔ (یہاں مذہب کے نکتہ چینوں سے یہ بھی عرض کرتے جائیں کہ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے پہلے ہندو سینا پتی پشیا مترا نے آخری موریہ بادشاہ کو 185قبل مسیح میں قتل کر کے حکومت پر قبضہ کیا تھا اور برہمن واد کے سخت ترین قوانین نافذ کئے تھے)۔ اس پر مستزاد یہ کہ معاشی سطح پر ہر ادارہ نجی شعبے کے حوالے کر کے منڈیوں کا ناکام تجربہ دہرایا جائے اور عوام کو فلاحی ریاست جیسی سہولتیں مہیا کرنے کے بجائے بلاواسطہ ٹیکسوں سے ان کا خون چوسا جائے۔ اس سارے پس منظر میں آپ خود طے کر لیں کہ ہمارے ہاں جاری نظام کے امتزاجی جزو کیا ہیں اور ہم ارتقا کی کس منزل پر کھڑے ہیں۔ کیا ہم ’سلطانی جمہور‘ کے قریب تر آ رہے ہیں یا اس سے دور جا رہے ہیں۔