’’امجد اسلا م امجد‘‘ ایک شاعر، ایک رہبر!

August 04, 2019

ؔمحبت ایسا دریا ہے

کہ بارش روٹھ ؕبھی جائے تو پانی کم نہیںہوتا!

اتنی خوبصورتی سے اتنی جامع بات کو دو مصرعوں میںکہنے کا فن امجد اسلام امجد کا ایک طرہ امتیاز ہے، جن کے فن کے سامنے سارے استعارے ہاتھ باندھے کورنش بجا لاتے ہیں۔ محبت ، خواب ، شہر دل ، خیال ، رنج وملا ل ، امید پیہم کی راہ گزرسے گزرنے والی یہ نابغہ روزگار ہستی آج بھی سخن سرا ہے اور ہماری تہذیب کے استعاروں کو نئی راہیںدکھا رہی ہے۔ شعرو سخن کے عہد کی بات کریں تو ہم واقعی عہد ِ امجد میں جی رہے ہیںکیونکہ امجداسلام امجدکا تعارف صرف نظمیںاو ر غزلیں ہی نہیں بلکہ چشم کشا کالم اور معرکتہ الآرا ڈرامے بھی ہیں،جنہوں نے ایک عالم کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔

مختصر سوانح

اردو زباں کے یہ عظیم شاعر، نقاد ، ڈرامہ نگار اور کالم نگار4اگست 1944ء کو پیدا ہوئے۔ لاہور میں ان کی پرورش ہوئی، جہاں پنجاب یونیورسٹی سے 1967ء میں فرسٹڈویژن میںایم اے اردو کیا۔ اس کے بعد 1968ء سے 1975ء تک ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میںتدریس سے منسلک رہے۔1975ء سے 1979ء تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے، اس کے بعد اردو سائنس بورڈ میں چیئرمینکے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1975ء میں مشہور ٹی وی ڈرامے ’خواب جاگتے ہیں‘ لکھنے پر گریجویٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈرامہ’وارث‘ ، ’دن‘، اور ’فشار‘ نے ان کو شہرت کی بلندیوںپر پہنچا دیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے، تنقیدی مضامین کی کتاب ’تاثرات‘ اور چند عربی نظموںکے تراجم شائع ہو چکے ہیں جبکہ دیگر شعری مجموعوں میں بارش کی آواز، شام سرائے، اتنے خواب کہاںرکھوں، نزدیک، یہیں کہیں، ساتواں در، فشار، سحر آثار، محبت ایسا دریا ہے، برزخ، اس پار، پھر یوں ہوا، ذرا پھر سے کہنا، باتیں کرتے دن، رات سمند ر میں، ہم اس کے ہیں(کلیات)، سپنوں سے بھری آنکھیں اور اسباب (حمد ونعت)ان کی عظمت کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے کالموںکے مجموعے تیسرے پہر کی دھوپ، کوئی دن اور چراغ راہگزر کے نام سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ سفرنامے اورڈرامے بھی اشاعت کے مراحل سے گزرچکے ہیں۔

امجد اسلا م امجد کی عظمت

امجد اسلام امجد کے کارہائے نمایاں کو ایک مضمون میںسمونا ممکن تو نہیں لیکن آپ کو بتاتے چلیںکہ انہوں نےپاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزازات ستارہ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے کے علاوہ بہترین ڈر امہ نگاری کے ایوارڈز بھی اپنے نام کیے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ امجدصاحب برصغیر کے کروڑوں دلو ںمیں بستے ہیں اور شاعری کی اصناف سے پیار کرنے والوں کے لبوںپر ان کی لازوال غزلیں اور نظمیںہروقت موجود رہتی ہیں۔ امجد اسلام امجد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں آسان الفاظ استعمال کرتے ہیں بلکہ مشکل سے مشکل خیال کو بھی ایسی روانی سے کہہ جاتے ہیں کہ پڑھنے والے کے دل میں ان کا کلام بآسانی اتر جاتاہے۔ یہی کسی بھی شاعر کی مہارت اور کمال ِ فن ہوتا ہے کہ اس کے خیالات ایک عام قاری کی سمجھ میں آجائیں۔

جس طرحپھلوں سے لدی پھندی شاخ جھکی ہوتی ہے یا صراحی سرنگوںہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ کی مصداق امجد اسلام امجد کی شخصیت بھی ملنساری و انکساری سے بھرپور ہے۔ امجد صاحب میں’’میں‘‘ کا استعارہ آپ کو نظر نہیںآئے گا، جس خندہ پیشانی اور عاجزی سے وہ شرف ملاقات بخشتے ہیں، اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ بڑے آدمی کی یہی پہچان ہے کہ جب وہ آپ اسے ملتے ہیں تو آپ کو چھوٹا یا اپنے سے کم تر محسوس نہیںہونے دیتے۔ آپ اس کا تجربہ کسی بھی محفل میںان سے ملاقات کرکے کرسکتے ہیں۔

امجد اسلام امجد کی باتیں

کسی بھی شخصیت کو پروان چڑھانے میںاساتذہ کا بہت ہاتھ ہوتاہے، یہی کچھ امجد صاحب کے ساتھی بھی ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے میں ان کے اساتذہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ بقو ل امجد اسلم امجد،’’ شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میںکوئی اضافی چیز ہے جو مجھے باقی طلبا سے شاید ممتاز کرتی تھی، چناچہ نویںجماعت میں مجھے اسکول کے مجلے (میگزین) کا ایڈیٹر بنا دیاگیا۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو مجھے احساس ہواکہ میںلکھ سکتاہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں‘‘۔

امجد اسلام امجد کی نوجوانی کے زمانے میںہر کوئی کرکٹر بننے کے خبط میں مبتلا تھا، یہی جنون ان پر بھی سوار ہوا لیکن جب اس کھیل میں انہیںیکے بعد دیگرے ناکامیاں ملیں تو انہوں نے کرکٹر بننے کا ارادہ ترک کردیا۔ دوسری جانب انہوں نے گریجویشن میںسب سے زیادہ نمبر حاصل کرلیے ،جس بنا پر انہیںاسکالر شپ مل گئی اور اس طرح ان کی تمام تر توجہ شعرو ادب کی طرف ہوگئی۔ امجد اسلام امجد کا کہنا ہے، ’’کلاسیکی شعرا کو پڑھنے کے بعد ہی آپ موجود ہ دور کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا حوالہ امجد اسلام امجد نے میرتقی میرؔ کے شعر سے دیا کہ جو چیز کارل مارکس نے طویل تحقیق کے بعد پیش کی، وہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے میرتقی میرؔ اپنے شعر میں یوں بیان کرگئے تھے۔

؎ امیر زادوں سے دلّی کے، مت ملا کر میرؔ

کہ ہم غریب ہوئے ہیں، انہی کی دولت سے